یہ تری یاد ہے یا تو مرے دروازے پر
دستکیں دیتی ہے خوشبو مرے دروازے پر
دل بھی سنتا ہے تری چاپ نہاں خانوں میں
تیری آہٹ ہے کہ جادو مرے دروازے پر
دل تو تاریک ہی تھا گھر میں اندھیرا کیوں ہے
پوچھنے آتے ہیں جگنو مرے دروازے پر
مری قسمت کہ ملی تجھ کو بھی اتنی فرصت
آ گیا چل کے جو خود تو مرے دروازے پر
سچے موتی ہیں یہ پیروں میں بھی آ سکتے ہیں
نہ گرا آنکھ سے آنسو مرے دروازے پر
تو نے چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش کی ہے
تجھ کو لائی ہے تری خو مرے دروازے پر
مجھ کو منظور ہے دشمن کی بھی خاطر جبران
وہ جو آئے کھلے بازو مرے دروازے پر
کتاب: تم سے کہنا تھا از وسیم جبران