شام و سحر

ڈاکٹر نثار ترابی اور “تم سے کہنا تھا” کی تعارفی تقریب

Waseem Jabran

مشاعرہ ختم ہوا تو شعرا چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف ہوئے۔ میں چائے کا کپ اٹھائے ممتاز شاعر، ادیب اور نقاد ڈاکٹر نثار ترابی کے قریب آ گیا۔ برسوں سے ان سے غائبانہ تعارف تھا مگر ملاقات کا پہلا موقع تھا۔ وہ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ کلین شیو، درمیانہ قد، قدرے لمبے بال اور ٹوپیس سوٹ پہنے ہوئے خاصے خوشگوار موڈ میں تھے۔ رسمی دعا سلام کے بعد میں نے عرض کی کہ اپنا وٹس ایپ نمبر عنایت کریں۔ یہ سن کر ان کے چہرے پر عجیب سے تاثرات ابھرے۔
“یہ وٹس ایپ وغیرہ سے میری شناسائی نہیں ہے۔ میرے پاس یہ فون ہے۔” انہوں نے بٹنوں والا سادہ موبائل جیب سے نکالا۔
“اوہ تو پھر نمبر عنایت کر دیں۔ میں آپ کو میسیج کروں گا۔”
“نمبر نوٹ کریں لیکن مجھے میسیج وغیرہ کرنے نہیں آتے۔ فون کر لیجئیے گا۔”
حالانکہ یہ سات آٹھ برس پرانی بات ہے لیکن ان دنوں بھی تقریباً سب لوگ سمارٹ فون کے استعمال کے عادی ہو چکے تھے۔ میں اس دور میں ترابی صاحب کی سادگی پر بڑا حیران ہوا۔ پھر میں نے سوچا کہ شاید وہ جان چھڑانے کے لیے ایسا کہہ رہے ہیں۔ بہرحال نمبروں کے تبادلے کے بعد کئی بار ان سے رابطہ ہوا تو یقین آ گیا کہ وہ واقعی بہت سادہ ہیں۔
قریباً چار برس پہلے ایک شام ان کی کال موصول ہوئی۔ انہوں نے یہ مژدہ جانفزا سنایا کہ وہ بطور وائس پرنسپل گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج مری آ چکے ہیں۔ اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہنوز جاری ہے۔
جب میرا اولین شعری مجموعہ “تم سے کہنا تھا” شائع ہوا تو ایک دن نثار ترابی صاحب نے کہا کہ دو تین دن کی چھٹی لیں ہمیں لاہور جانا ہے۔ میں نے کیا حضرت ایسی کیا افتاد آن پڑی۔ تب وہ گویا ہوئے کہ “تم سے کہنا ہے” کی تقریبِ رونمائی لاہور میں کرانی ہے۔ ہنگامی طور پر پروگرام طے پایا اور ہم اپنی کار میں لاہور روانہ ہوئے۔
سفر کے دوران ترابی صاحب نے ادبی دنیا کے حوالے سے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا جو لاہور پہنچنے تک جاری رہا۔
“اس دنیا میں جہاں مخلص اور سچے لوگ ہیں وہیں حاسدین کی بھی کمی نہیں۔ آپ کو بہت محتاط رہنا ہو گا۔” ترابی صاحب مجھے بڑے بھائی کی طرح اسرار و رموز سمجھا رہے تھے۔
گاڑی انار کلی فوڈ سٹریٹ میں داخل ہوئی تو ریستورانوں کے نمائندوں سے گھیراؤ کر لیا۔ وہ سب اپنے اپنے ریسٹورانٹ سے ہمیں کھانا کھلانے پر مصر تھے۔ میں اس “پزیرائی” پر خوش ہوا تو نثار ترابی صاحب نے خبردار کیا کہ پہلے کسی ہوٹل تک پہنچ جائیں۔ بہرحال ایک ہوٹل میں کمرہ حاصل کیا اور ترابی صاحب نے احباب کو فون کرنے شروع کئے۔ میں نے کہا قبلہ پہلے کھانا تناول فرما لیں۔ وہ بولے۔
” کتاب کی تقریب رونمائی کسی ولیمے کی تقریب سے کم نہیں ہوتی۔ بہت سے معاملات دیکھنے پڑتے ہیں۔ اب آپ تو تقریب کے دولہا ہیں لہٰذا آپ ان معاملات میں دخل نہ دیں اورسب کچھ بڑے بھائی پر چھوڑ دیں۔”
سب سے پہلے اقبال راہی اور علی حسین عابدی تشریف لائے۔ پروگرام کو حتمی شکل دی گئی۔
“یہ کمرہ آپ کو بہت اچھا ملا ہے۔ آپ اپنے قیام کو طول دیں ہم یہیں آپ سے ملنے آیا کریں گے۔” اقبال راہی صاحب گویا ہوئے۔
“واقعی اور کمرے سے نکلیں تو اپنی پسند کا کھانا کھا کر دو منٹ میں واپس آ سکتے ہیں۔” میں نے کہا۔
ترابی صاحب بھی کھل اٹھے۔ لیکن یہ کھلنا عارضی تھا۔ ملاقاتی جا چکے تھے۔ رات کے بارہ بج رہے تھے اور انار کلی کی رونق میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ میں تو بستر پر لیٹتے ہی نیند کی وادی میں چلا گیا۔ صبح آنکھ کھلی تو دیکھا کہ نثار ترابی صاحب اپنے بستر پر بیٹھے خلا میں گھور رہے ہیں۔ مجھے جاگتا پا کر بولے۔
“آپ کتنے خوش قسمت ہیں اتنے شور میں بڑے آرام سے اتنی گہری نیند سو گئے۔ خدا کی قسم ایک پل کے لیے نہیں سو سکا۔ ساری رات ٹریفک رواں دواں رہی اور شور سنائی دیتا رہا۔”
“اوہ! تو آپ شور میں نہیں سو سکتے۔ کوئی بات نہیں ہم ہوٹل بدل لیں گے۔ اس شام میں اور علی حسین عابدی موٹر سائیکل پر شور سے دور پرسکون ماحول میں کوئی ایسا ہوٹل ڈھونڈ رہے تھے جس کا کرایہ بھی مناسب ہو۔ ہماری تلاش کامیاب ہوئی اور رات ایک بجے بالآخر ایسا ہوٹل مل گیا۔ ترابی صاحب نے ایسی گہری سانس لی جیسے دولتِ کائنات مل گئی ہو۔
“تم سے کہنا تھا” کی تعارفی تقریب اکادمی ادبیات 22 جے گلبرگ میں ہونا قرار پائی تھی۔ ترابی صاحب اور میں اپنی گاڑی میں گلبرگ روانہ ہوئے۔ مجھے 22 جے کا پتا نہیں تھا اور ترابی صاحب کو عموماً راستے یاد نہیں رہتے۔ چناں چہ گلبرگ تو پہنچ گئے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے آگے کہاں جانا ہے۔ ابھی ترابی صاحب رستے کا اندازہ لگا رہے تھے کہ اچانک سامنے سے فرحت عباس شاہ آتے دکھائی دئیے۔ اعجاز رضوی ان کے ہمراہ تھے۔ فرحت عباس شاہ اس تقریب کی صدارت کر رہے تھے۔ ہم فوراً گاڑی سے نکلے۔ مصافحے اور معانقے سے فارغ ہوئے تو ترابی صاحب نے کہا۔
“شاہ جی ابھی تو تقریب میں دیر ہے۔ آپ پہلے ہی آ چکے ہیں۔”
فرحت عباس شاہ مسکرائے۔ “فکر مت کریں، ہم تو واک کرنے اور ایک دو ضروری کام نبٹانے نکلے ہیں۔ آپ اکادمی پہنچیں ہم وقتَ مقررہ پر آ جائیں گے۔” اس کے ساتھ ہی رہنمائی بھی کر دی بمشکل سو قدم کے فاصلے پر اکادمی کی عمارت تھی۔ ان سے رخصت لے کر وہاں پہنچے تو انتظامات مکمل تھے۔
اس تقریب کے مہمانِ خصوصی اقبال راہی اور ڈاکٹر نثار ترابی تھے۔ اعجاز رضوی، فیصل زمان چشتی، علی حسین عابدی، ڈاکٹر عابدہ بتول اور فراست بخاری نے اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر ایم ابرار نے نظامت کے فرائض نبھائے۔ خاص طور پر فرحت عباس شاہ، اعجاز رضوی اور نثار ترابی صاحب نے کتاب اور میری شاعری پر بھرپور تبصرہ کیا۔ مجھے سٹیج پر بلایا گیا تو میرے پاس اظہارِ تشکر کے لئے الفاظ کم پڑ رہے تھے۔ شاعری بھی سنی گئی۔ الغرض تقریب کامیاب رہی۔ اگلے روز ہمیں واپس آنا تھا لیکن میری خواہش تھی کہ وجاہت مسعود اور عدنان خان کاکڑ صاحب سے مل کر آئیں۔ فون پر رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ آخر عدنان خان کاکڑ صاحب سے رابطہ ہوا۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر آپ الحمرا کے نزدیک ہیں تو آ جائیں ہم سب یہیں ہیں۔
“جی ہم تو بحریہ ٹاؤن میں “بیاض” کے ایڈیٹر نعمان منظور صاحب کے گھر بیٹھے ہیں۔ یہاں سے آنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹا تو لگ جائے گا۔” میں منمنایا۔
“تو پھر آج ملاقات کو بھول جائیں۔” کاکڑ صاحب نے صاف صاف کہا۔ یوں اس دن ملاقات نہ ہو سکی۔ البتہ وجاہت مسعود صاحب سے بعد میں بڑی دلچسپ ملاقات ہوئی جو گھنٹوں پر محیط تھی اس کا قصہ پھر کبھی۔ اس کے بعد کورونا آ گیا اور ایسی تقریبات پر پابندی لگ گئی۔ گزشتہ روز ڈاکٹر نثار ترابی کی بیٹی کی شادی تھی۔ مبارکباد کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ ترابی صاحب جیسے مخلص اور سچے لوگ آج کل بہت نایاب ہو چکے ہیں جو خاموشی کے ساتھ ادب کی ترویج و ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہاں ایک اور بات کہ ترابی صاحب نے سمارٹ فون خرید لیا ہے لیکن وہ اب بھی وٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ کو وبال سمجھتے ہیں۔ سمارٹ فون سے بھی میسیج نہیں کرتے ڈائریکٹ فون ہی کرتے ہیں۔

مزید تحریریں