شام و سحر

جہاں پریاں اترتی ہیں

Waseem Jabran

                 میں نے اُس کی آواز سنی تھی اور یہ عہدِ شباب کا آغاز تھا جب میرے کانوں میں پہلی بار رس بھری سی ایک سرگوشی گونجی۔ میں اس آواز سے نا آشنا تھا۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں ایک شبہے نے سر اٹھایا۔ شاید یہ میرا واہمہ ہے، کوئی خواب ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ حقیقت ہو لیکن میں نے اس آواز پر دھیان نہیں دیا تھا۔ خواب کیا ہے اور حقیقت کیا ہے ہم اس بارے میں کب جانتے ہیں۔ ممکن ہے ہم خواب میں ہی جی رہے ہوں۔ شاید کسی دن آنکھ کھلے اور پتہ چلے کہ ہم خواب سے حقیقت کی دنیا میں آ گئے۔ میں نے اسے بھلا دیا یا کم از کم فراموش کر دینے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس آواز نے ہار نہ مانی تھی۔

میں ایک ٹریک پر تھا۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ ٹریک پر چہل قدمی کرنے والے اب گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف کیل، چیڑھ اور دیودار کے بلند قامت درخت ایستادہ تھے۔ ہوا ان درختوں کی شاخوں کو چھو کر سرگوشیاں کرتے ہوئے گزرتی تھی۔ ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف گہری کھائیاں تھیں۔ مری میں قیام کی تیسری شام تھی اگلے روز ہمیں واپس جانا تھا۔ سفر کے ساتھی مال روڈ پر گھومنا چاہتے تھے اور میں کچھ وقت اپنے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ مغرب کی سمت سورج  خون کی مانند سرخ دکھائی دے رہا تھا۔  سائے گہرے ہو رہے تھے۔ فضا میں ایک نامعلوم سی مہک تھی۔ پہاڑوں کی بھی ایک خاص مہک ہوتی ہے۔ جس میں گھاس، پیڑوں  اور چشموں کی مہک کے ساتھ وہاں کے ماحول کی پراسرار خوشبو گھلی ہوئی ہوتی ہے۔ میں گہری سانسیں لے کر اس خوشبو کو اپنے اندر اتار رہا تھا۔  تب وہ آواز میرے کانوں میں گونجی۔

میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہاں میرے سوا کوئی نہ تھا۔ میں اس آواز کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔ میرے بائیں ہاتھ کھائیوں میں گھنا  جنگل تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ کبھی کبھار اس جنگل میں چیتا بھی دکھائی دیتا ہے۔ تب اس نے پھر سرگوشی کی۔ اس بار اس کی آواز واضح تھی۔

“تم کب آؤ گے؟ میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں”

میں اس آواز کو پہچانتا نہ تھا مگر ایسا لگتا تھا جیسے وہ اجنبی نہیں ہے۔ نہ جانے اس سے میرا کیا رشتہ تھا اور یہ رشتہ کتنا پرانا تھا۔ چند دنوں کا، کچھ سالوں کا یا پھر صدیوں کا۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ مگر کچھ تھا جو مجھے پتہ نہ تھا۔ جھاڑیوں میں سر سراہٹ سی ہوئی۔ میں بری طرح چونک اٹھا۔ کہیں کوئی چیتا تو آس پاس نہیں۔ یہ ٹریک بینک روڈ سے شروع ہو کر جھیکا گلی اترتا تھا۔ میں اس کے درمیان میں تھا۔ اردو گرد کوئی مکان نہ تھا۔ میں اگر چیختا تو  شاید کوئی میری مدد کے لیے نہیں آ  سکتا تھا۔ چناں چہ میں خاموش تھا۔ میں نے سرسراہٹوں پر توجہ دی۔ یقیناً  کوئی تھا۔ آواز بہت صاف تھی اور اب  بہت قریب سے آ  رہی تھی۔ پھر میں نے اسے دیکھ لیا۔ وہ ایک نہیں کئی تھے۔ سب سے آگے والا جنگلی سور بہت موٹا تازہ اور خوب پلا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے چھ سات تھے۔ ٹریک پر آتے ہی وہ رک گئے۔ میں نے سنا تھا کہ جنگلی سور حملہ بھی کر دیتے ہیں اور کافی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مگر یہاں معاملہ مختلف تھا۔ وہ سور رک گئے تھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ بھی ڈر رہے ہیں۔ پھر اچانک وہ  مڑے اور دوبارہ کھائی میں اتر گئے۔ میں بھی سر جھٹک کر واپسی لے لیے مڑ گیا۔ تاریکی گہری ہورہی تھی اور جھیکا گلی اتر کر واپسی کے لیے خاصا وقت درکار تھا۔ میں اب جلد از جلد اپنے ساتھیوں کے پاس جانا چاہتا تھا۔ اس دوران میں اس سرگوشی کو بھول چکا تھا جس نے کئی مہینوں کے بعد مجھے پکارا تھا۔

مجھے معلوم نہ تھا کہ تلاشِ رزق مجھے مری لے آئے گی۔ میں ایم  اے اردو کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھا رہا تھا۔ میرا  ایک بچپن کا دوست ایم بی بی ایس کرنے کے بعد خانیوال میں  مسیحائی کرتا تھا۔ اس نے اپنا  چھوٹا سا ہسپتال بنایا تھا۔ میں روزانہ شام کو  چھ سات بجے اس سے ملنے جاتا تھا۔  وہاں ایک کرسی میرے لیے مخصوص تھی ۔ وہ مریضوں کو دیکھتا اور میں اخبار کا مطالعہ کرتا۔ اس دوران اس سے باتیں بھی ہوتی رہتیں۔ نو بجے کلینک بند ہوتا تو ہم باہر کھانے پینے کے لیے چلے جاتے۔ ایک شام جب کلینک میں مریضوں کی تعداد معمول سے زیادہ تھی اور ڈاکٹر کاشف جاوید شیخ کو سر کھجانے کی فرصت نہ مل رہی تھی تو میں اس دن کا سارا اخبار چاٹ چکا تھا۔ میں نے سوچا کہ پرانے اخبار سے کوئی کالم وغیرہ پڑھتا ہوں۔ میری کرسی کے پیچھے ہی وہ شیلف تھی جہاں اخبارات ایک ترتیب سے رکھے  ہوتے تھے۔  میں نے تین چار اخبارات کے نیچے سے ایک اخبار نکالا۔ یہ جون 2002 کے  اتوار کا اخبار تھا۔ اخبار کھولتے ہی ایک اشتہار پر میری نظر پڑی اور جیسے جم کر رہ گئی۔

ڈاکٹر کاشف ایک مریض کا معائنہ کر رہا تھا اسے قطعاً علم نہ تھا کہ آج اس کے کلینک میں پڑا ہوا ایک چند دن پرانا اخبار مجھ پر کس طور سے اثر انداز ہوا ہے۔ کاشف سے میری پہلی ملاقات سکول میں ہوئی تھی۔  اس دور میں گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول خانیوال شہر کا سب سے عمدہ سکول سمجھا جاتا تھا اور  مختلف سکولوں سے پانچویں پاس کرنے والے طلبہ کی پہلی ترجیح ہوتا تھا۔ پرائیویٹ سکول وجد میں آ چکے تھے مگر ابھی ان کی وہ شہرت نہ تھی جو اب ہے اور پھر خانیوال ایک چھوٹا شہر ہے وہاں پرائیویٹ سکول کو گلی محلے کا سکول سمجھا جاتا تھا۔ وہاں جو چند پرائیویٹ سکول تھے وہ  دس مرلہ کے گھروں میں قائم تھے البتہ ایک دو بڑی کوٹھیوں میں بھی تھے لیکن گورنمنٹ ماڈل سکول  بہت وسیع و عریض تھا۔ اس کی پر شکوہ عمارت  قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں نے بنائی تھی۔اس چار گیٹ تھے۔ ایک گیٹ سے دوسرے گیٹ تک جانے میں بھی بہت وقت لگتا تھا۔ اس سکول میں  کرکٹ، فٹ بال اور ہاکی کے الگ الگ گراؤنڈز تھے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی سکول میں تینوں کھیلوں کے لیے پوری لمبائی چوڑائی کے تین تین گراؤنڈز موجود ہوں۔ تو اسی سکول میں چھٹی جماعت میں داخلے کے پہلے روز میں  اپنے سیکشن کے کئی طلبہ سے ملا۔ ایک خوش شکل اور خوش مزاج لڑکے سے دوستی کا آغاز اسی دن ہوا اور وہی کاشف تھا۔ پھر  مبشر اور تنویر ملے۔ اس طرح چار دوستوں کا ایک حلقہ بنا۔ یہ دوستی آج تک قائم ہے حالاں کہ اس کے بعد بھی بہت سے دوست بنے لیکن ہم چار آج بھی ویسے ہیں جیسے اس دور میں تھے۔

کاشف کو ڈاکٹر بننے کا  شوق تھا اور یہ شوق انتہا درجے کا تھا۔ ہم تین فلمیں  دیکھتے، گراؤنڈ میں چلے جاتے مگر ایف ایس سی کے زمانے میں کاشف کو سوائے پڑھائی کے کسی کام میں دلچسپی نہ تھی۔ ہم  چاروں تنویر کے گھر میں اکٹھے تھے۔ وی سی آر پر فلم لگا دی گئی۔ کاشف بے چین ہو گیا۔

“کیا تم لوگ اب فلم دیکھو گے؟”

“سنجے دت کی مووی ہے”قبضہ” یہ کیسے چھوڑ دیں۔” تنویر یوں حیران تھی جیسے کاشف نے بالکل بے معنی سا سوال پوچھا ہو۔ کاشف منہ بھینچ کر بیٹھ گیا مگر اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ ہم فلم کے سین میں کھوئے ہوئے تھے۔ فلم میں سنجے دت کو گولیاں لگی تھیں اور وہ آپریشن تھیٹر میں تھا۔ ہم ہونٹ کاٹتے اور ناخن چباتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اس کا بنے گا۔ ایسے میں کاشف نے مجھے بازو سے پکڑ کر متوجہ کیا۔

“کیا ہوا؟ ” میری نظریں ٹی وی سکرین پر جمی تھیں۔

“میں  گھر جا رہا ہوں، مجھے پڑھنا ہے” کاشف کسی اضطراب میں مبتلا تھا۔

“کیوں جانا ہے؟ ہم نے آج ادھر کچھ وقت گزارنا تھا”

“ہاں! لیکن اب مجھے جانا ہے۔ گپ شپ تو آدھا گھنٹہ بھی ہوسکتی تھی اور میں اتنا ہی وقت دے سکتا ہوں لیکن اب فلم تین گھنٹے چلے گی اور چار دن تک ذہن رہے گی میں اتنا وقت ضائع نہیں کر سکتا” کاشف کا لہجہ تلخ تھا۔

“اوہو ابھی یہ تو دیکھو کتنی کرٹیکل سچویشن ہے، سنجے دت کو پانچ گولیاں لگی ہیں، اگر وہ ٹھیک نہ ہوا تو فلم کیسے چلے گی” میں نے جھنجھلا کر کہا۔

“کچھ نہیں ہو گا، وہ فلم کا ہیرو ہے بچ جائے گا” کاشف نے بیزاری  سے کہا۔ لیکن میں اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔ اور اس بات پر حیران ہوتا تھا کہ یہ کیسا لڑکا ہے جو فلم چھوڑ کر جانا چاہتا  ہے۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ سنجے دت جسے پانچ گولیاں لگی ہیں وہ بچے گا  کہ نہیں۔ میری نظریں سکرین پر تھیں جہاں اب ڈاکٹر آپریشن  تھیٹر سے باہر آ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ماسک تھا لہٰذا اس کے چہرے کے تاثرات کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ فلم بنانے والوں نے بھی خوب سسپنس ڈالا تھا۔ ڈاکٹر ایک ایک قدم چلتا ہوا آ رہا تھا۔ یہ جلدی سے بتا کیوں نہیں دیتا کہ کیا ہُوا۔ ڈاکٹر پر بھی غصہ آ رہا تھا۔ پھر ڈاکٹر نے اعلان کیا کہ مریض کی حالت خطرے سے باہر ہے تو ہماری جان میں جان آئی۔ میں نے گہری سانس لے کر پیچھے کاشف کی طرف دیکھا مگر وہ وہاں نہیں تھا۔  وہ  جا چکا تھا۔ تو وہی کاشف اب ڈاکٹر کاشف تھا۔

مری کے چنار آرمی کالج میں اردو کے لیکچرر کی ضرورت تھی۔ مری کا نام آتے ہی میں ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا تھا جہاں پہاڑ تھے، دلکش نظارے تھے، اونچے اونچے درخت اور گہری سبز گھاس تھی۔ جس کی فضا میں مسحور کن خوشبو تھی اور بادل سڑکوں پر استقبال کرتے تھے اور جب  جسم سے ٹکراتے تھے تو گالوں پر ٹھنڈک کے ساتھ ہلکی سی نمی بھی بکھیر دیتے تھے۔ مری سے عشق بھی بچپن میں ہی ہوا تھا۔ یہ بھی ایک ان دیکھا اور انجانا سا عشق تھا۔ اس کا محرک وہ کتابیں تھیں جو اس زمانے میں پڑھی تھیں۔

 (جاری ہے)مجھے انٹرویو کے لیے جانا تھا۔ ڈاکٹر کاشف سے بات کی تو اس نے فوری طور پر منع کر دیا۔

مزید تحریریں