شام و سحر

رشید امجد کی افسانہ نگاری

Waseem Jabran

رشید امجد

رشید امجد اردو کے نامور افسانہ نگار ہیں۔ وہ 5 مارچ 1940 کو سری نگر، ریاست جموں و کشمیر کے محلہ نواب میں پیدا ہوئے۔ رشید امجد ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد کا نام محی الدین تھا جو قالینوں کا کام کرتے تھے اور اور ساتھ ہی علم و ادب کا گہرا ذوق بھی رکھتے تھے۔ وہ شاعر بھی تھے، پنجابی اور فارسی میں شاعری کیا کرتے تھے۔ رشید امجد کا بچپن سری نگر کی گلیوں میں گزرا۔ والد کے کہنے پر ان کے دوست اور ان کی قالینوں کی فیکٹری کے مینیجر حبیب اللہ کے پاس پڑھنے کے لیے جاتے تھے جہاں وہ غالب اور حافظ جیسے عظیم شاعروں سے شناسا ہوئے اور غالب کا نام تو ان کے ذہن پر نقش ہو گیا جس کا ذکر انھوں نے اپنی خود نوشت ” تمنا بے تاب ” میں یوں کیا ہے:
” اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں کے علاوہ پہلا اجنبی نام جو میرے شعور کا حصہ بنا وہ غالب تھا۔ ”
پاکستان منتقل ہونے کے بعد انہیں اعجاز راہی، منشا یاد اور غلام رسول طارق جیسے رہبر ملے۔ رشید امجد علامتی افسانہ نگاری کے حوالے سے پاکستان کے ایک اہم افسانہ نگار تصور کیے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں انتظار حسین ، ڈاکٹر انور سجاد اور خالدہ حسین کے ساتھ ساتھ رشید امجد نے افسانوی ادب کے حوالے سے باشعور قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
رشید امجد کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ” بےزار آدم کے بیٹے” تھا۔ یہ مجموعہ 1974 میں منظرِ عام پر آیا مگر ان کے افسانے دس بارہ سال قبل سے ہی مختلف رسالوں میں چھپ کر موضوع ِ گفتگو بنتے رہے تھے۔ اس افسانوی مجموعے کے بعد ان کے ایک درجن سے زائد افسانوی مجموعے شائع ہوئے جو اردو ادب کا قابلِ فخر سرمایہ ہیں۔

رشید امجد کی ابتدائی زندگی

رشید امجد کی زندگی میں مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ان کی ہمت و جرات کا پتا دیتی ہے جو بعد ازاں ان کے فنی و تخلیقی سفر میں بھی نظر آتی ہے۔ 1947 میں پاکستان منتقل ہونے کے بعد ان کے خاندان کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے والد کو کاروبار میں پے در پے نقصان ہوا۔ ان نا مساعد حالات میں بھی ان کے اہلِ خانہ اور خصوصاً والدہ ان کی تعلیم سے بے خبر نہیں تھیں۔ حصولِ تعلیم کے لیے ان کی والدہ کی کوششوں میں پیار بھی تھا اور سختی بھی ۔ رشید امجد کی یادداشتوں اور ان کی سیرت و کردار پر ان کے اثرات ہمہ گیر ہیں۔
” امی کا فلسفہ یہ تھا کہ بچے کو ایک پیسہ بھی جیب خرچ کے لیے نہیں دینا چاہیے لیکن دوسری طرف پیسہ بچا بچا کر میرے لیے کھانے پینے کی اچھی سے اچھی اور میری پسند کی چیز لے لیتیں۔ سب سے پہلے میں کھانا کھاتا۔”
حالات نے انھیں اتنا سنک کر دیا تھا کہ انہیں ہر چیز کا منفی پہلو ہی نظر آتا۔ ایک شک مستقلاً ان کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔ امی کی شدت پسندی کے ردِ عمل میں میرا اکھڑ پن بھی بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
” امی نے ہمیشہ مجھے اپنی محبت کی بکل میں دبا کر رکھا۔ اتنا دبایا کہ کبھی کبھی میرا دم گھٹنے لگتا”
رشید امجد ایک انٹرویو میں اپنی والدہ کے حوالے سے کہتے ہیں:
” میری والدہ بہت مذہبی خاتون تھیں اور بہت وظیفے کیا کرتیں۔ ایک میٹا فزیکل فضا تھی جومجھے گھر میں محسوس ہوتی جس کا بیان ممکن نہیں ہے، ایک پر ُاسرار فضا تھی ہمارے گھر میں۔ سری نگر والے گھر میں بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔”
بچپن سے ہی رشید امجد کے مزاج میں تجسس اور انہونی باتوں کی تلاش کا عنصر شامل تھا۔ یہ رجحان ان کے ابتدائی مطالعاتی دور میں بھی اپنے اثرات مرتب کرتا نظر آتا ہے:
” ابتدا میں مجھے جاسوسی کہانیا ں پڑھنے کا بہت شوق تھا، کچھ ان کا اثر بھی ہو گا جو میرے مزاج کا حصہ بن گیا۔ مجھے یہ بڑی جستجو تھی کہ یہ جو “اَن نون” ہے، اس کے بارے میں جانا جائے کہ یہ کیا ہے؟ راولپنڈی میں رشید امجد کا داخلہ ایک سکول میں کر دیا گیا تھا۔ والد کے مالی مسائل کی وجہ سے ان کے گھریلو حالات بھی خاصے متاثر ہوئے ۔ والد اور والدہ کے درمیان کشیدگی رہنے لگی۔ گھر کے حالات اور والدہ کی سختی کی وجہ سے پڑھائی میں ان کی دلچسپی واجبی سی رہ گئی تھی۔ انھوں نے 1955 میں میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج اصغر مال میں داخلہ لیا۔ رشید امجد کی والدہ انہیں بے حد عزیز رکھتی تھیں لیکن ان کے مزاج کی سختی نے ان پر منفی اثرات بھی مرتب کیے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے رشید امجد لکھتے ہیں:
” امی کی شدت پسندی کے ردِ عمل میں میرا اکھڑ پن بھی بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ایک بار دو ماہ کی فیس اکٹھی جمع کرانا تھی ۔ امی نے اپنی انگوٹھی بیچ کر پیسے اکٹھے کیے۔ میں نے فیس کالج میں جمع کرانے کے بجائے اسے اِدھر اُدھر خرچ کر دیا۔ دو ایک مہینے اسی طرح گزر گئے۔ اس کے بعد میرا نام کٹ گیا۔ کچھ عرصہ معاملہ یوں چھپا رہا کہ میں روزانہ کالج کے لیے گھر سے نکلتا اور ادھر ادھر مارا مارا پھرکر وقت پر گھر آ جاتا ۔ آخر کب تک ، امی کو معلوم ہو گیا۔ بہت روئی پیٹیں مگر اتنے مہینوں کی فیس جمع کرانے کی کوئی سبیل نہ بنی ۔ میری تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔”
رشید امجد کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا تو انھوں نے گھر کی ضروریات کے مدِ نظر پی۔ڈبلیو۔ ڈی کے شعبے سے وابستہ ہو کر گھر کی کفالت میں معاونت کا فیصلہ کیا۔ یہیں ان کی ملاقات پہلی بار منشا یاد سے ہوئی۔ منشا یاد سے راہ و رسم بڑھی تو انھوں نے رشید امجد کو بتایا کہ وہ افسانے بھی لکھتے ہیں۔ منشا یاد نے “شمع” میں چھپنے والا اپنا ایک افسانہ بھی رشید امجد کو پڑھوایا۔ اس طرح رشید امجد افسانے سے شناسا ہوئے۔ دونوں میں قربت بڑھتی گئی۔ منشا یاد جب بھی کوئی افسانہ لکھتے تو رشید امجد کو ضرور سناتے۔ جب منشا یاد کا راولپنڈی سے تبادلہ ہو گیا تو وقتی طور پر ان کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ ان دنوں رشید امجد نے لکھنا شروع نہیں کیا تھا لیکن منشا یاد کی صحبت ، والد کی ادبی وراثت اور مطالعے کے شوق نے ابتدائی زندگی کے اس حصے میں ان کے مزاج میں ادب کا رجحان پیدا کر دیا تھا۔ ان کا مطالعہ بھی بہت بڑھ گیا تھا۔ ان کی والدہ کو رشید امجد کی ادبی کتابوں میں اس قدر دلچسپی اچھی نہ لگتی تھی۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے رشید امجد لکھتے ہیں:
“میں نے لکھنا تو ابھی شروع نہیں کیا تھا لیکن پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچ گیا تھا۔ امی کومیرا کتابیں پڑھنا پسند نہیں تھا۔ والد کی زندگی کے رویوں کی وجہ سے وہ ادب و شعر کے بارے میں بہت منفی خیالات رکھتی تھیں۔
رشید امجد اپنی والدہ کے بہت قریب تھے۔ جنوری 1977 میں ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ ایک عرصے تک اس صدمے سے باہر نہ نکل سکے۔ ان کے والد پاکستان منتقل ہونے کے بعد چند برس ہی زندہ رہے تھے۔ رشید امجد کو والد کی وفات سے زیادہ والدہ کی وفات کا صدمہ تھا۔ ان کی والدہ ذیا بطیس کی مریض تھیں۔ جنوری کے ابتدائی دنوں میں راجا بازار راولپنڈی سے واپسی پر ان کے ٹخنے پر چوٹ لگی۔ تین چار دن تک انھوں نے پروا نہ کی، ان کی ٹانگ پنڈلی تک سوج گئی۔ ایک رات وہ بے ہوش ہو گئیں، انہیں ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں اور وفات پا گئیں۔ رشید امجد “تمنا بے تاب” میں لکھتے ہیں:
“رات کو میری چھوٹی بہن شاہین ان کے پاس رہتی تھی۔ تیسرے دن ابھی اذانیں ہو رہی تھیں کہ گھبرائی ہوئی آئی، بتایا کہ امی رات ایک بجے سے بے ہوش ہیں۔ ہم عموماً بارہ بجے رات تک ان کے پاس رہتے تھے۔ افراتفری میں ہسپتال پہنچے، وہ بے ہوش تھیں۔ ڈاکٹر کے آتے آتے آٹھ بج گئے۔ وہ بڑا مایوس تھا، ہم امی کو ہولی فیملی (ہسپتال) لے گئے۔ایمبولینس سے اتارتے ہوئے دل بیٹھا جا رہا تھا۔ انھیں وہاں بھی ہوش نہ آیا اور وہ چار بجے کے قریب فوت ہو گئیں، یہ جمعہ 14 جنوری 1977 تھا۔
رشید امجد اپنا اظہار چاہتے تھے اس لیے لکھتے رہے۔ وہ اپنے عہد اور اس کے آشوب کو لفظوں میں زندہ کرنا چاہتے تھے تھے۔ وہ ایک ایسے آئیڈیل معاشرے کے خواہاں تھے جہاں ایک عام آدمی سر اٹھا کر جی سکے۔ جہاں اس کی رائے کی اہمیت ہو۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں مارشل لا کے خلاف جدوجہد دکھائی دیتی ہے۔

 رشید امجد کی افسانہ نگاری کا آغاز

رشید امجد نے 501 سنٹرل ورکشاپ میں ملازمت شروع کی تو دفتری فرائض کی ادائیگی کے بعد باقی وقت جاسوسی ناول پڑھنے میں گزارتے۔ یہیں ان کی ملاقات اعجاز راہی سے ہوئی۔ ان کے درمیان قربت بڑھی تو کتابوں کا
تبادلہ بھی ہونے لگا۔ اعجاز راہی افسانے بھی لکھتے تھے۔ انھوں نے اپنا ایک افسانہ رشید امجد کو پڑھنے کے لیے دیا ۔ افسانہ پڑھنے کے بعد انھوں نے اعجاز راہی سے کہا کہ ایسا افسانہ تو وہ بھی آسانی سے تحریر کر سکتے ہیں۔ اعجاز راہی نے کہا پھر لکھیں:
“چند دن گزر گئے۔ اُس نے پھر یاد کرایا بلکہ اصرار کیا کہ میں کہانی لکھوں ، میں نے ایسے ہی غیر سنجیدگی سے ایک کہانی لکھ کر اسے دی ۔ اعجاز راہی نے کہانی کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ تم تو افسانہ نگار ہو۔”

یوں رشید امجد کی افسانہ نگاری کا آغاز ہوا۔ اعجاز راہی کی حوصلہ افزائی کے بعد رشید امجد نے دو تین اور کہانیاں لکھیں اور اس دور کے ایک مشہور فلمی رسالے “رومان” کو اختر رشید ناز کے نام سے اشاعت کے لیے بھیج دیں۔ رشید امجد کی پہلی کہانی “رومان” میں شائع ہو گئی اور یوں وہ نوجوان لکھاریوں میں شامل ہو گئے۔ ان کی فنی تربیت میں غلام رسول طارق نے اہم کردار ادا کیا۔ غلام رسول طارق فرنٹیئر پریس کے منیجر تھے ۔ وہ خود شاعر تھے اور کبھی کبھی افسانےبھی لکھتے تھے۔ رشید امجد کی ملاقاتیں غلام رسول طارق سے ہونے لگیں۔ ان کی فرمائش پر رشید امجد نے اپنی کہانی ” سنگم” برائے اصلاح ان کو دکھائی۔ غلام رسول طارق نے اصلاح کے بعد کسی اچھے رسالے میں اشاعت کے لیے بھیجنے کا مشورہ دیا۔ رشید امجد نے “رومان” کا ذکر کیا تو غلام رسول طارق برہم ہوئے اور فلمی پرچے کے بجائے “ادبِ لطیف” میں بھیجنے کا مشورہ دیا۔ “نقوش” کے بعد “ادبِ لطیف” اس زمانے میں اہم ادبی پرچہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ جو میرزاا دیب کی ادارت میں شائع ہو رہا تھا۔
رشید امجد کے والدین نے ان کا نام اختر رشید رکھا تھا۔ ان کی کہانیاں اب تک اختر رشید ناز کے نام سے شائع ہو رہی تھیں۔ غلام رسول طارق نے رشید امجد کو اپنا نام بدلنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ان کے مشورے سے یہ طے ہوا کہ “اختر رشید ناز” اب “رشید امجد” ہوں گے۔ اس طرح رشید امجد کے نام سے انھوں نے اپنی کہانی “سنگم” ادب لطیف میں اشاعت کے لیے بھجوا دی ۔ یوں بطور رشید امجد ان کی پہلی کہانی شائع ہوئی۔ یہ “ادبِ لطیف ” کا ستمبر 1960 کا شمارہ تھا۔
سنگم کے بعد اگلی کہانی رشید امجد نے غلام رسول طارق کے مشورے سے “داستان گو” کو بھیج دی جس کے مدیر اشفاق احمد تھے۔ یہ کہانی بھی اگلے ہی شمارے میں شائع ہو گئی۔
معتبر ادبی رسالوں میں خصوصیت کے ساتھ ان دونوں کہانیوں کی اشاعت نے بہ طور افسانہ نگار رشید امجد کی ادبی حیثیت مستحکم کر دی۔ رشید امجد اپنے اس شاندار افسانوی سفر کے آغاز کے لیے اپنے استاد غلام رسول طارق کی کاوشوں اور مشوروں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” ان دونوں کہانیوں نے مجھے یکدم ایک معتبر افسانہ نگار بنا دیا۔ میرے اس آغاز کا سہرا استاد غلام رسول طارق کے سر ہے۔
رشید امجد افسانے لکھنے لگے انہیں غلام رسول طارق کی رہنمائی حاصل تھی۔ حلقہ اربابِ ذوق میں بھی جانے لگے۔ رشید امجد ادبی دنیا میں بہ حیثیت افسانہ نگار اپنی جگہ بنا چکے تھے ، لیکن تعلیمی سلسلہ درمیان میں ہی منقطع ہو چکا تھا۔ استاد طارق نے انہیں پھر تعلیم کی طرف راغب کیا۔ چنانچہ رشید امجد نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بحال کیا۔ پہلے ادیب فاضل، ایف ۔اے اور پھر بی ۔اے کرنے کے بعد ایم۔اے اردو میں نمایاں کا میابی حاصل کی۔ اس کے بعد واہ کینٹ کے سی۔بی کالج میں بطور لیکچرر ان کا تقرر ہوا۔ جہاں انھوں نے یکم نومبر 1968 سے ملازمت شروع کی۔ یہاں سے رشید امجد کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے۔
رشید امجد نے ادیب، محقق اور نقاد وزیر آغا کی صحبت اور شفقت سے بھی فیض حاصل کیا۔ رشید امجد ایم۔ اے کے بعد ہی استاد کی حیثیت سے کالج سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ایک عرصے بعد وزیر آغا ہی نے انہیں پی ایچ ڈی کرنے کی طرف راغب کیا۔ رشید امجد نے جب پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا تو وزیر آغا ہی ان کے نگران تھے۔ اس طرح استاد غلام رسول طارق کی تحریک پر رشید امجد نے اعلی تعلیم کے حصول کا جو سفر شروع کیا تھا وہ وزیر آغا کی ترغیب پر پی ایچ ڈی کی شکل میں تکمیل کو پہنچا۔

مزید تحریریں