شام و سحر

پریم چند کی افسانہ نگاری

Waseem Jabran

   وسیم جبران 

      پریم چند  کا اصل نام دھنپت رائے تھا  لیکن  ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔  وہ 1880 میں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی عجائب لال ڈاک خانے میں ملازم تھے۔  1900 میں گورنمنٹ مڈل سکول سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

 1919 میں الہٰ آباد یونیورسٹی سے بی اے کر لیا۔ 1921 میں ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور مکمل طور پر علمی و ادبی کاموں میں مشغول ہو گئے۔ 1936 میں انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے پہلے اجلاس کی صدارت کی اور اسی سال بنارس میں وفات پائی۔                                                                                 پریم چند اردو ادب کا گراں قدر اور بیش بہا سرمایہ ہیں۔اردو افسانوی ادب میں ان کا مرتبہ و منصب بہت بلند ہے۔  پریم چند ہر عہد کا ایک بڑا افسانہ نگار ہے۔ پریم چند کو وفات پائے تقریباً 85 برس کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ان کے افسانے آج بھی مقبول ہیں۔

یہی ایک بڑے فنکار کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہر عہد پر اثر انداز ہوتا ہے۔  ہم کہہ سکتے ہیں کہ پریم چند ہر عہد کے بڑے افسانہ نگار ہیں۔  پریم چند کی قدر و قیمت متعین کرتے ہوئے سری نواس لاہوتی رقم طراز ہیں:                                                                                                                                          ”پریم چند کے بعد  سے افسانہ نگار سامنے آئے لیکن کوئی بھی اس بلند مرتبہ کو حاصل نہیں کر سکا جہاں پریم چند  پہنچ چکے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ ان میں بہت سوں نے پریم چند سے زیادہ گہرائی کے ساتھ سماجی نظام کا مطالعہ کیا ہے اور وہ ان سے زیادہ طبقاتی شعور رکھتے ہیں لیکن عوامی زندگی کی جو کشمکش ہمیں پریم چند کے ادب میں ملتی ہے وہ ان کے بعد آنے والے ادیبوں کی تخلیقات میں ایک دو کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں ہے۔“(1)                        پریم چند کی بطور افسانہ نگار مقبولیت کا اہم سبب ان کی انفرادیت ہے۔ ایک ایسے دور میں جب حسن و عشق کے قصے عوام  میں مقبول تھے۔ طلسم و پرستان کی کہانیاں مزے لے لے کر پڑھی جاتی تھیں۔  پریم چند نے حسن و عشق سے آگے بڑھ کر زندگی کی تلخ حقیقتوں پر قلم اٹھایا۔

 وہ عام انسان کی آواز بنے۔ مزدور، کسان اور پسے ہوئے طبقوں کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔  ہندوؤں میں بیوہ کی دوسری شادی کا رواج نہیں۔ پریم چند نے اس رجحان کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ ہندو مسلم تفریق کے قائل نہیں، وہ مذہب کے نام پر کسی کے استحصال کے خلاف تھے۔ پریم چند کے خیال میں ادب کا پرانا ڈھانچا بوسیدہ اور بیکار ہو چکا تھا۔

 وہ ایک ایسا ادب چاہتے تھے جو عوام میں ذہنی بیداری کا باعث بھی بنے اور ان کی حالت بدلنے میں ان کا عملی مددگار بھی ہو سکے۔ پریم چند کو افسانہ نگاری پر پورا عبور حاصل ہے۔ ان کے ہاں کہانی پن اپنی پوری توانائی سے جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔ جذبات میں انہیں سکھ، دکھ، رنج، خوشی، حسد، رشک، بغض، ہر قسم کے جذبات پیش کرنے میں ملکہ حاصل ہے۔ وہ سوچ سمجھ کر لکھتے ہیں۔ ایک ایک لفظ ناپ تول کر لکھتے ہیں۔

           پریم چند نے 1907 میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ اس سال ان کا اولین افسانہ ”دنیا کا سب سے انمول رتن” شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کا افسانوں کا اولین مجموعہ ”سوزِ وطن کے نام سے سامنے آیا۔ پریم چند کے ابتدائی افسانوں میں وطنیت کا غلبہ ہے۔

ان افسانوں میں پریم چند ایک محبِ وطن نظر آتے ہیں جنہوں نے برملا بدیسی حکمرانوں اور انگریزی سامراجیت سے اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔ پریم چند اس دور کی سیاسی فضا سے متاثر تھے۔ سوزِ وطن سے اگلا قدم ترقی پسند قدم ہے۔  وہ معاشی بدحالی، جہالت، تواہم پرستی، فرقہ پرستی، چھوت چھات اور بے عملی پر قلم اٹھاتے ہیں۔

پریم چند کے افسانوں کی ایک بڑی خوبی حقیقت نگاری ہے۔پریم چند سے پہلے رومانیت کو غلبہ حاصل تھا۔ حقیقت نگاری سے یہ مراد نہیں کہ واقعات کو جوں کا توں پیش کر دیا جائے بلکہ ایک فنکار حقیقت کو اپنی فنکارانہ صلاحیت سے ایسے پیش کرتا ہے کہ وہ ادبی فن پارہ بن جاتی ہے۔ اس حوالے سے ممتاز شیریں کا خیال ہے:                                                                                                                                                                                            ”حقیقت نگاری کے معنی یہ نہیں کہ جو کچھ سامنے گزر رہا ہے، اسے من و عن بیان کر دیں خواہ یہ روکھی پھیکی رپورٹیج کیوں نہ بن جائے۔ رپورٹیج اور   فن میں یہ فرق ہے کہ فنکارانہ چیز،تخلیق میں واقعات کے چناؤ،  ترتیب اور اندازِ بیان کو بہت بڑا دخل ہے۔2“

 پریم چند کے کردار حقیقی دنیا کے جیتے جاگتے انسان ہوتے ہیں۔ وہ مافوق الفطرت یا تصوراتی دنیا کے کردار تخلیق نہیں کرتے۔ ان کے کردار روتے بھی ہیں اور ہنستے بھی ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہیں۔

ان کے کرداروں میں رنج، خوشی، حسد، رشک، مکاری، عیاری، بغض، انا، ایمانداری، محبت غرض ہر طرح کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ان کے اہم کرداروں میں ‘کفن’ کے مادھو اور گھیسو،  ‘شطرنج کے کھلاڑی’ کے میر اور مرزا، ‘زیور کا ڈبا’ کی چمپا اور پرکاش، ‘نئی بیوی’ کی آشا، ‘پوس کی رات’کی منی  شامل ہیں۔

 پریم چند کے کردار اپنی فطری زندگی جیتے ہوئے اپنے حصے کا کام انجام دیتے ہیں۔ پریم چند کو فن پر دسترس حاصل ہے۔پریم چند کے افسانے فنی لوازم سے پر نظر آتے ہیں۔ قصہ پن، پلاٹ، کردار نگاری، مکالمے اور وحدتِ تاثر پریم چند کے افسانوں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اسی لیے ان کا نام آج بھی ادب کے افق پر جگمگا رہا ہے۔

            حوالہ جات

1۔ سری نواس لاہوتی، پریم چند کا ذہنی ارتقا، ماہنامہ شاہراہ، دلی، 1960، ص 15

2۔  ممتاز شیریں، معیار، نیا ادارہ، لاہور، 1963،  ص 122

مزید تحریریں