شام و سحر

رشید امجد کی ادبی زندگی کا ارتقا

Waseem Jabran

                رشید امجد کا  پہلا افسانوی مجموعہ “بیزار آدم کے بیٹے” تھا۔ اس کتاب سے وہ بحیثیت علامت نگار مشہور ہوئے۔ اس کی اشاعت 1974 میں ہوئی۔ پھر  یکے بعد دیگرے ان کے کئی افسا نوی مجموعے منظرِ عام پر آتے چلے گئے۔  جن میں ریت پر گرفت، سہ پہر کی خزاں، پت جھڑ میں خود کلامی، بھاگے ہے بیاباں مجھ سے، دشتِ خواب اور ست رنگے پرندے کے تعاقب میں قابلِ ذکر ہیں۔ان میں فنی اور فکری دونوں حوالوں سے ارتقا ملتا ہے۔

                 رشید امجد نے حقیقت نگاری کے عروج کے دور میں  لکھنے کی ابتدا کی۔ پہلے پہل  نئے لکھنے والوں کی طرح  انھوں نے بھی “جنس” کے موضوع پر لکھا لیکن کم لکھا اور چار پانچ سال میں یہ انداز ترک ہو گیا۔ 1965 میں  رشید امجد نے افسانہ “لیمپ پوسٹ” لکھا جسے وہ “سنگم” کے نام سے پہلے تحریر کر چکے تھے۔ 1966 میں یہ “اوراق” میں  شائع ہوا۔ یہ ان کے ایک نئے ادبی سفر کا آغاز بھی تھا۔  اس افسانے میں علامتی طرزِ بیان نظر آتا ہے۔

                 رشید امجد کی ادبی زندگی کا آغاز 60 کی دہائی میں ہوتا ہے۔ اس دور میں ترقی پسند تحریک دم توڑ رہی تھی اور افسانہ نگاری کا فن جدیدیت کی طرف رواں دواں تھا۔ نئے ادبی رویے اور خیالات سامنے آ رہے تھے۔ ان کے خلاف ردِ عمل بھی فطری تھا۔ رشید امجد بھی جدید ادبی رجحانات سے متاثر نئے لکھنے والوں میں شامل تھے۔ وہ نیا ادب متعارف کروانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس حوالے سے وہ لکھتے  ہیں:

                                 ” میں اس وقت افسانہ نگار کی حیثیت سے سامنے آ چکا تھا لیکن اس وقت میرا مسئلہ افسانہ سے

                                     زیادہ نئے ادب کو متعارف کروانے کا تھا کیونکہ ہم  سمجھتے تھے کہ نئے رویوں اور نئے خیالات

                                    کے بارے میں ایک تعصب برتا جا رہا ہے، اس لیے ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت

                       ہے اور اس کا طریقہ کار یہی ہےکہ نئے ادب کا ایک جامع فکری اور فنی تعارف کروایا جائے۔”

                رشید امجد نے اپنے زمانے کی ادبی تحریکات  اور نئے ادبی زاویے کے فروغ میں بھرپور کردار ادا کیا اور اس سے ان کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں میں نکھار آیا۔ رشید امجد  ترقی پسند خیالات  کے حامل تھے اور ترقی پسندوں کی سرگرمیوں میں شریک بھی رہے لیکن وہ ادب میں کسی مخصوص نظریے کی تائید کے قائل نہیں تھے لہٰذا وہ جلد ہی ترقی پسندوں سے الگ ہو گئے۔  ترقی پسندوں کے حوالے سے  ان کی رائے ہے کہ ان میں سے بیشتر کی فکر بہت محدود ہوتی ہے اور اس کی  ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خود ساختہ حصار کے قیدی ہوتے ہیں  اور دوسری وجہ  باہر کی دنیا سے بے خبری ہے۔ چنانچہ رشید امجد لکھتے ہیں:

                            ” اکثر ترقی پسندوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی کھوہ میں آنکھیں بند کیے بیٹھے مارکس کی کتابوں کا ورد

                                کر رہے ہیں انھیں خبر ہی نہیں کہ باہر کیا کچھ ہو گیا ہے۔”

                  ادب کی بقا اور ارتقا کے لیے آزادی فکر کی حیثیت مرکزی ہے۔  لہٰذا  ادب ہم سے ایک خاص نوع کی آزادی کا طالب ہوتا ہے۔ دنیا تغیر کا نام ہے۔ ہر لمحہ نئی تبدیلیاں اور انقلابات زندگی کا حصہ بنتے  ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ رشید امجد ادب کو کسی مخصوص دائرے کا پابند کرنے کے بجائے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ ادب کی بقا اور ارتقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں کہ:

                               ” ادب بنیادی طور پر ایک تجسس پسند  (سیکر) کی طرح ہے جو ہر لمحہ نئی دنیاؤں ، نئی سمتوں اور

                                     نئے رشتوں کا متلاشی رہتا ہے۔ ادب پر حد بندی اس تجسس کی موت  اور اس کی زندگی کے

                                       خاتمہ کا اعلان ہے۔”

                   پاکستان میں 1958 کے مارشل لا کے نفاذ سے  ماحول میں ڈر اور خوف کی فضا پیدا ہوئی۔  اس خوف کے ماحول اور شہری حقوق کی پامالی کے متعلق رشید امجد کا خیال ہے کہ “جمہوریت کی موت نے دلوں میں مایوسی  اور ذہنوں میں

بے عملی پیدا کرنے میں  نمایاں حصہ لیا” 1965 کے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی شکست اور اس کے بعد پیش آنے  والے واقعات نے بھی ان کے ذہن پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے۔ وہ اس حوالے سے بیان کرتے ہیں  کہ:

                               “بے دلی اور مایوسی  جنوری 1965 کے نام نہاد انتخابات میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی

                                       شکست کے بعد موت کا سایہ بن کر قوم پر منڈلانے لگی ۔ کراچی میں کتوں کے گلوں میں

                                       مقدس ماں کی تصویریں لٹکا کر آمریت کی فتح کا جشن منایا گیا۔ قوم کی بیٹیاں اس جرم میں

                                       اغوا کر لی گئیں کہ ان کے بھائی آزادی کا بنیادی حق مانگتے تھے”

                   رشید امجد جمہوری نظام کے شدید حامی ہیں ۔ انھوں نے آمریت کو ہمیشہ سخت نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور بساط بھر اس کی مخالفت بھی کی۔ مارشل لا کے دور میں جب اظہار پر پابندی ہو، گھٹن کا ماحول ہو تو ایسے میں علامتی ادب فروغ پاتا ہے۔ پاکستان  کے علاوہ ہندوستان میں بھی 60 کے عشرے میں کم و بیش ایسے ہی حالات تھے لیکن وہاں کی فضا نسبتاً آزاد تھی تاہم غربت، جنگ اور فرقہ ورانہ فسادات کی وجہ سے لوگوں میں عدم تحفظ، مایوسی اور نامرادی کی کیفیات پائی جاتی تھیں۔ رشید امجد کے خیال میں ادب پر بھی اس کے اثرات کا مرتب ہونا  ناگزیر تھا چنانچہ انہی کے الفاظ میں :

                                   ” نتیجہً وہاں بھی  ادب میں مایوسی  اور نامرادی کی لہریں ابھر آئیں اور ایسی علامتیں وجود میں

                                         آئیں  جن کا مقصود جبر و استبداد اور خوف کی کیفیات کا اظہار تھا۔ ان دس سالوں میں لکھے

                                          جانے والے ادب میں پاکستان اور بھارت  دونوں جگہ ، چڑیلیں، آسیب، سورج، سنسناتی

                                           ہوا، لہو، خزاں، صلیب، سیاہ راہ، زردی وغیرہ علامتیں اسی کا نتیجہ ہیں “

                مارشل لا  کا نفاذ  ایک جبر ہوتا ہے اور رشید امجد کے ہا ں بھی اس کا اظہار بطور جبر ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ مارشل لا کی مذمت کی ہے۔  اس حوالے سے ان کا ایک افسانہ “گملے میں اُگا ہوا شہر” بہت اہم ہے۔ یہ

ان کا بہترین افسانہ ہے۔ اس افسانے میں عوام کے محبوب لیڈر کو پھانسی پر چڑھا دیا  جاتا ہے۔  رشید امجد  نے اس افسانے میں لوگوں کے مردہ ضمیر کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ مارشل لا  پابندی اور گھٹن  کا ماحول پیدا کرتا  ہے۔ تحریر و تقریر پر پابندیاں بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کے مترادف ہیں۔ مارشل لا کے دوران لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پروان چڑھتا ہے۔ خوف و ہراس کی فضا ہوتی ہے۔ اس افسانے میں اسی طرح کے ماحول کی عکاسی ملتی ہے۔

             جبر کے ماحول میں آواز اٹھانے والوں کو بھی گولی مار دی جاتی ہے۔ اس لیے لوگ ڈرتے ہیں اور احتجاج کرنے سے گریز کرتے ہیں۔  افسانے میں عوام کے محبوب لیڈر کو سزائے موت دی جاتی   ہے۔ یہ خبر چشم زدن میں شہر  میں پھیل

جاتی ہے۔  لوگ غم و غصے کے عالم میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ انہی میں افسانے کا مرکزی کردار بھی شامل ہوتا ہے۔ میت اٹھانے کے بعد مرکزی کردار کو ایسا لگتا ہے کہ میت گم ہو گئی ہے۔ اب ہر شخص پریشانی کے عالم میں میت کی گمشدگی کے بارے میں بات کرتا ہے۔

             یہ خبر قبر کھودنے والوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔  وہ بھی فکر مند ہو جاتے ہیں  کہ اب وہ کسے قبر میں دفن کریں گے۔  اب  ہر شخص خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں اسے   دفن نہ کر دیا جائے۔ لوگ اندر ہی اندر یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ انہیں اس جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ شاید وہ احتجاج کرتے تو اپنے لیڈر کو بچا لیتے۔   یہ افسانہ ایک اجتماعی تشکیک کے مسئلہ کی عکاسی کرتا ہے جہاں سب لوگ سمجھتے ہیں کہ میت گم ہو گئی ہے۔   رشید امجد اس  تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ  وطنِ عزیز کے لوگ  سوچ کی وسعت  سے عاری ہیں ۔  رشید امجد نے گملے میں اُگے ہوئے شہر کی علامت

محدود سوچ کے حوالے سے  تراشی ہے۔ کسی گملے میں کوئی تناور درخت نہیں پنپ سکتا اور پاکستانی قوم کے افراد بھی اتنے قد آور نہیں کہ اپنے محبوب لیڈر کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں اور گملے جیسے اپنے محدود حصار سے باہر نکلیں۔ اسی لیے ان کا لیڈر تختہ دار پہ لٹکا دیا گیا ۔

             رشید امجد کے الفاظ سے نئے نئے معانی اور مفاہیم  پیدا ہوتے ہیں۔ رشید امجد زبان سے تخیل کا وہ کام لیتے ہیں جو ان کے سوا کوئی اور افسانہ نگار نہیں لے سکا۔  وہ علامت کو کثرت سے استعمال کرتے ہیں  اور   افسانے کو نیا پیراہن عطا کرتے ہیں۔ ان کی اسی انفرادیت  کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں کہ :

                              “صحیح معنوں میں علامتی افسانے لکھنے کے سلسلے میں سب سے اہم نام رشید امجد کا ہے۔

                                رشید امجد نے نہ صرف ایک منفرد اسلوب اختیار کیا بلکہ کہانی اور اس کے کرداروں کے

                               عقب میں ایک بالکل نئے اور کنوار منطقے کی تصویر دکھائی “

                  رشید امجد جب افسانہ لکھتے تھے تو  کہانی شروع کرنے کے ساتھ ہی  اس کا ایک واضح انجام پہلے سے سوچ کر نہیں رکھتے تھے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہوتا تھا کہ ابتدا میں جو سوچا ہے کہانی وہیں ختم کی جائے۔ وہ اس کے اختتام کے بارے میں پلاننگ نہیں کرتے تھے۔ افسانہ مکمل کرنے کے بعد وہ اس میں ضروری کانٹ چھانٹ بھی کرتے تھے۔  ان کے مطابق یہ کام ان کے اندر کا نقاد کرتا تھا۔ کہانی کے آغاز میں بعض اوقات انہیں کافی سوچنا پڑتا۔ ایک دو جملے لکھ کر کاٹ دیتے۔ پھر دوبارہ لکھتے۔ اگر بار بار لکھ کر کاٹنا پڑتا تو سمجھ جاتے کہ یہ کہانی ابھی خام ہے۔ جب  شروع کے جملے ان کی مرضی کے مطابق لکھے  جاتے تو کہانی آگے بڑھتی تھی:

                             “میں لکھنے سے پہلے  اس کی منطقی  یا تکنیکی ترتیب قائم نہیں کرتا ۔ خیال اپنے ابتدائی جملوں کے

                                  ساتھ میرے ذہن کی سکرین پر واضح ہوتا ہے۔ اگر یہ ابتدائی جملے  مناسب نہ ہوں تو اسے لکھ

                                   نہیں سکتا ۔ اگر میں پہلا جملہ لکھتا ہوں یا دو ایک جملے  لکھ کر انہیں بار بار کاٹوں  تو مجھے خود اس کا

                                   احساس ہو جاتا ہے  کہ یہ کہانی تخلیقی بھٹی میں  ابھی پوری طرح تیار نہیں ہوئی۔ میں اسے اسی

                                   طرح چھوڑ دیتا ہوں  لیکن اگر میں نے ابتدائی چند جملے لکھ لیے اور وہ میری خواہش کے مطابق

                                     ہوئے تو کہانی آگے چل پڑتی ہے”

                   بطور افسانہ نگار جب وہ کسی صورتِ حال  کو دیکھتے یا ان کے ذہن میں کوئی خیال آتا  تو ایک خودکار طریقے کے مطابق ان کے ذہن میں تخلیقی عمل  شروع ہو جاتا۔ بعض اوقات وہ خیال فوراً ہی افسانے میں ڈھل جاتا اور بعض اوقات وہ خیال مہینوں تخلیقی عمل سے گزرتا ۔  ان کے افسانے  ایک ہی مرکزی خیال کے گرد بنے  جاتے۔ وہ افسانے میں تہہ در تہہ خیالات یا مختلف پرتوں کے قائل نہ تھے۔ ان کا تخلیقی عمل  جدگانہ تھا۔ ان کے موضوعات  ندرتِ خیال  سے نمو پاتے تھے اور ایک عام افسانہ نگار کی تخلیق کا حصہ نہیں بن سکتے تھے کیونکہ ان کا تخلیقی عمل عام افسانہ نگار کے طریقہ کار سے مختلف تھا۔ بعض اوقات ایک خیال ان کے ذہن میں آتا اور پھر  خود کار طریقے سے افسانے میں ڈھل جاتا۔ وہ شعری وسائل کا

استعمال بھی کھل کر کرتے تھے اور اس کی وجہ بھی وہ خود بیان کرتے ہیں کہ  کچھ خیالات سادہ طریقے سے بیان کرنے والے نہیں ہوتے۔ اس کے لیے ایک فن کارانہ مہارت درکار ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں “اَن نون” یا  نامعلوم کی کھوج دکھائی دیتی ہے۔وہ اس نامعلوم کو جاننا چاہتے ہیں۔ وہ اس بھید کو کھولنا چاہتے ہیں کہ  یہ نامعلوم کون ہے؟ اور کیا ہے؟ اور ان کا اس حوالے سے کیا کردار ہے۔ یہی سوچ انہیں لکھنے پر اُ کساتی تھی۔ “تمنا بے تاب” میں  وہ یوں بیان کرتے ہیں:

                                   “لکھنا بھی ایک اظہار ہے اور اس اظہار کی توفیق اسی کو حاصل ہوتی ہے جو حقیقت کو پہچان

                                          لیتا ہے، مجھے لکھنے کا دعویٰ نہیں، اپنے تئیں میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں حقیقت

                                          کو اس کی تہہ تک پہنچ کر  پہچاننا چاہتا ہوں۔ یہ نامعلوم کی تلاش  ایک ایسا سفر ہے جس میں

                                         اپنا آپ گم ہو جاتا ہے۔ زماں کیا ہے اور مکاں سے پہلے وہ کس صورت میں تھا؟ وہ جو دور

                                          سرمئی دھند میں کہیں چھپا بیٹھا ہے کیا ہے اور کون ہے؟ میرا اس سے تعلق  کیا صرف

                                              خالق اور تخلیق کا ہے یا اس اسرار میں ، میرا بھی کوئی کردار ہے، یہ وہ سوال ہیں  جو مجھے

                                                         لکھنے پر مجبور کرتے ہیں”

               رشید امجد کے افسانوں میں خیال کو خاص اہمیت حاصل  ہے۔ وہ واقعے سے خیال تک کا سفر بڑی آسانی سے طے کر لیتے ہیں۔ اسی لیے ہم ان کے افسانوں کو کامیاب افسانے کہہ سکتے ہیں۔ انہیں  بیانیہ کی حدود اور تقاضوں پر بھی دسترس حاصل ہے۔ وہ واحد متکلم راوی کا  استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ ان کے  بیشترافسانوں  کا راوی “میں ” ہے۔

            ان کے افسانوں میں کردار کی شخصیت  اور نفسی کیفیت کا  بھرپور اظہار ملتاہے۔ ان کے کرداروں میں عام لوگ اور نچلے درجے کے لوگ زیادہ نظر آتے ہیں۔ بے جان اشیا بھی ان کے افسانوں میں مرکزی کردار کی حیثیت سے سامنے آتی ہیں۔  بعض الفاظ ان کے فکر و اظہار میں خاص اہمیت رکھتے ہیں:

                              “رشید امجد کے کرداروں میں بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوان، اس کے آوارہ گرد ساتھی، پاس

                                  پڑوس کی لڑکیاں، ماں، بہنیں، نچلے درجے کے خدمت گار، وغیرہ زیادہ نظر آتے ہیں۔ مرشد

                                  اور شیخ  بھی  ان کے دو اہم کردار ہیں، جن کے حوالے سے وہ مابعد الطبیعاتی تجربات کا اظہار کرتے

                                   ہیں۔ اس کے علاوہ بے جان اشیا کو بھی بعض موقعوں پر کردار کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ گاڑی، گھر،

                                  دیوار، گلیاں، قبر،  سمندر وغیرہ ان کے کئی افسانوں میں کردار بن کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ بعض

                                 الفاظ  اور اصطلاحات کو ان کے فکری نظام میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قبر، موت، دھند، رات،

                                تاریکی، پرندے ، جانور،  ریت ، وقت وغیرہ اسی نوع کے الفاظ ہیں”

                 رشید امجد بطور افسانہ نگار اپنے منفرد اسلوب اور اندازِ فکر کے سبب ادبی  دنیا میں معروف ہیں۔ مروّجہ اسلوب سے انحراف اور لسانی تشکیلات کا عمل ان کے فن کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے۔ ان کے اسلوب میں شعریت کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے جس سے ان کے جملوں پر مصرعوں کا گمان ہوتا ہے ساتھ ہی ساتھ تشبیہ، استعارہ اور علامت کی مدد سے وہ  بیانیہ کی تشکیل کرتے  ہیں ۔ تلمیح، تمثیل اور تصوف کی  اصطلاحات کے ذریعے بھی  وہ

افسانے کے معنی کو وسعت دیتے ہیں ۔ تخیل آفرینی اور حقیقی مناظر کی جھلک کبھی الگ الگ اور کبھی انہیں باہم  ملاکر منظر کی تشکیل کرتے ہیں ۔ رشید امجد نے شاعرانہ وسائل سے اپنے افسانوں میں اس قدر کام لیا ہے کہ نثر، نظم سے قریب نظر آتی ہے۔ لفظوں کی نشست و برخاست جملوں کی ساخت کے ساتھ ساتھ تشبیہات ، استعارات اور علامات سے اس طرح کام لیتے ہیں کہ  ان کی نثر پر شعریت کا گمان  ہوتا ہے اور حسن و لطافت اور تغزل کی وہ خصوصیت جو شاعری کے ساتھ

مخصوص ہیں ان کے افسانوں میں بھی اس کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر نوازش علی نے اپنے مضمون رشید امجد کے افسانوں کی اسلوبیاتی اساس میں ان کے اسلوب کے متعلق لکھا ہے:

                                    “یہ اسلوب اس کی ذات کے انکشافات کی دین ہے۔  یہ کوئی اوپر سے اوڑھا ہوا اسلوب

                                      نہیں ہے۔ اس نے استعارتی و علامتی اور شاعرانہ انداز بیان زیب داستان کے لیے اختیار

                                     نہیں کیا بلکہ اس کے تجربات و احساسات ہی ایسے تھے جن کو گرفت میں لینے کے لیے اسے

                                      شاعری وسائل سے کام لینا پڑا اس کے استعاروں اور علامتوں کے پیچھے اس کے اپنے تجربات و

                                        کیفیات کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس کے بعض استعارے تخلیقی کارنامے ہیں جو ایک خاص عہد

                                        اور ایک قوم کی تاریخ کے پورے دور پر محیط ہیں “

            مارکسی نقطہ نظر کی آواز بھی ان کے افسانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ رشید امجد کا دل عام لوگوں کے لیے دھڑکتا تھا اس لیے وہ ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے جہاں نہ صرف خواص بلکہ عام لوگ بھی خوشی خوشی زندگی گزار سکیں اسی لئے وہ عام لوگوں کی کہانیوں کو موضوع بناتے تھے ۔ اسی وجہ سے جب پورب اکیڈمی اسلام آباد سے  2006 میں ان کی افسانوی کلیات شائع ہوئی تو اس کاعنوان بھی’’ عام آدمی کے خواب‘‘ رکھا ۔

             رشید امجد کے یہاں بھی افسانے کے روایتی اصولوں سے انحراف نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں پلاٹ بھی ہوتا ہے اور کردار بھی لیکن یہ پلاٹ روایتی پلاٹ اور کردار سے مختلف ہوتے ہیں ۔ انہیں الفاظ کے برتاؤ اور افسانے کے اسلوب  پر گہری دسترس حاصل ہے۔ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے  انھوں نے نت نئے تجربے کیے  ہیں ۔

            اس کے علاوہ انسان، انسانی روّیہ، انسانی جذبات، معاشرہ، معاشیات، نفسیات، مارشل لا،صنعتی تہذیب کی بے حسی، داخلی قرب، اپنے تشخص کی تلاش، سیاسی جبر، حالات کی ستم ظریفی،غرض مسلسل غوروفکر کے نتیجے میں افسانوی

کینوس کو وسیع کیا ہے۔ ان کے افسانے کی دنیا فکر و خیال سے لے کر مابعد طبعیاتی تجربات تک پھیلی ہوئی ہے ۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ موضوعات کے اعتبار سے بھی وہ ایک اہم افسانہ نگار ہیں ۔

مزید تحریریں