شام و سحر

وسیم جبران: ایک دلگداز شاعر

انسانی زندگی خوشی اور غم کے جذبات سے عبارت ہے۔ ہر شخص ان کیفیات کا زندگی بھر سامنا کر کے عدم کی طرف کوچ کر جاتا ہے۔ ان کیفیات کا احاطہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں البتہ نثر نگار، نثر میں اور شعرا اپنی شاعری میں ان جذباتی کیفیات کی لفظی عکس بندی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وسیم جبران بھی دورِ حاضر کے ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے احساسات، جذبات اور دلی کیفیات کو غزل کے روپ میں بیان کیا ہے۔ غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس کے بارے میں فراق گورکھپوری کا بیان ہے:

                ”تاثرات کی انتہاؤں یا منتہاؤں کا مترنم خیالات یا محسوسات بن جانا اور مناسب ترین یا موزوں ترین

                    الفاظ و اندازِ بیان میں ان کا صورت پکڑ لینا ہی غزل ہے۔“

        غزل بے حد لچک دار صنفِ سخن ہے اور ہر قسم کے موضوعات کو اپنے دامن میں حسن و لطافت سے سمیٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم اپنے موضوع کے اعتبار سے ہم شاعری میں دلگدازی کی کیفیت دیکھیں گے۔

        وسیم جبران  اب تک دو شعری مجموعوں کو اپنے تخیلاتی حسن کی زبان دے چکے ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ”تم سے کہنا تھا“ ہے۔ نام سے ہی کیفیت عیاں ہے کہ شاعر کے دل میں کوئی کسک رہ گئی ہے اور دوسرا شعری مجموعہ ”تمام دکھ ہے“ میں شاعر کی دلگدازی زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے۔ مجموعہ دکھ سے شروع ہو کر دکھ پر ختم ہوتا ہے۔

        دلگداز کے معنی لغت میں مختلف بیان ہوئے ہیں۔ ان معنوں میں چند ایک یہ ہیں، روح فرسا، درد ناک اور نرمی اور دل گرفتگی سے بات کرنا یا نرمی پیدا کرنا۔ وسیم جبران کی شاعری میں دلگدازی ان تمام معنوں میں موجود ہے۔

        اب جو برسوں کے بعد آئے ہو

        اتنی زحمت کی کیا ضرورت تھی   (تم سے کہنا تھا)

        دل یہ کہتا ہے کہ ضبط اُس کا بھی ٹوٹا ہو گا

        سرد شاموں میں کبھی وہ بھی تو رویا ہو گا       (تم سے کہنا تھا)

        نمی ہے آنکھوں میں دل میں کانٹے چبھے ہوئے ہیں

        سحر ہے غمناک، شام دکھ ہے، تمام دکھ ہے              (تمام دکھ ہے)

        وسیم جبران کی شاعری میں دکھ درد کے اشعار ہر صفحے پرکیفیت بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دکھ ایک داخلی جذبے کا نام ہے یہ جذبہ شاعر کی داخلی کیفیت میں دلگدازی اور اداسی کا آئینہ دار ہے لیکن شاعر مایوس قطعاً نہیں۔ وہ غم و یاسیت کے تاثرات کو اپنی شاعری کا جزو تو بناتا ہے مگر بے بسی، مایوسی اور حزن کی کیفیات اپنے اوپر طاری نہیں کرتا بلکہ ہر حال میں زندہ رہنے کا جذبہ وسیم جبران کی لطیف و پر کیف شاعری کا خاصا ہے۔وہ شب تاریک میں اجالے ساتھ رکھتے ہیں اور ہر حال میں خوش ہیں:

        مجھے مایوس کر سکتے نہیں حالات کیسے بھی

        شبِ تاریک میں بھی میں اجالے یاد رکھتا ہوں    (تم سے کہنا تھا)

        لمحہ لمحہ خوشیوں کا ہو یا دکھ درد کے موسم ہوں

        مالک تُو جس حال میں رکھے میں اس حال میں رہ لوں گا

        کوئی امید کبھی بھی کسی سے مت رکھنا

        خدا سے مانگ لو سب کچھ خدا محبت ہے

        وہ چونک اٹھا ہے جبرانؔ میرے شعروں پر

        ہر ایک شعر پر اُس نے کہا محبت ہے

        رات اندھیری ہے لیکن مایوس نہ ہو

        دن نکلے گا یاد دلانے آیا ہوں

        یوں دیکھا جائے تو وسیم جبران کی دلگدازی بھی محبت بانٹتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ محبت کے جذبات کا ایک سیلِ رواں بن جاتے ہیں۔ یہی وہ رنگ ہے جہاں وہ دلگداز کیفیات کے استغراق سے پہلوتہی کرتے ہوئے عشق و محبت کے جذبات اپنے شعری حصار میں کھینچتے چلے جاتے ہیں اور اپنے تخیلات، تجربات، مشاہدات اور احساسات کو منفرد پیرائے میں غزل کے کینوس پر لے آتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ غزل کی معروف فکری حکمت اور شاعر کی اپنی ذہنی ساخت اور فکری پرداخت ہے۔ بہر حال وجہ کوئی بھی ہوقاری وسیم جبران کی زبان کے بہاؤ، مضمون آفرینی اور متخیلہ کے جوش و خروش کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہاں روح فرسا جذبات کی جگہ روح پرور کیفیات کا سماں بندھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

        ذکر تُو چھیڑ شاعری کا کبھی

        دیکھ پھر معجزہ روانی کا

        ڈوبتا ہوں کبھی ابھرتا ہوں

        میں تو سورج ہوں پھر نکلتا ہوں

        تیری آواز کتنی میٹھی ہے

        گیت کوئی سنا محبت کا

        تیری تصویر لگا رکھی ہے یوں کمرے میں

        پھول گلدان میں جس طرح سجا ہوتا ہے

        عشق کو مات کبھی کوئی نہیں دے سکتا

        مر بھی جائیں تو یہ عاشق نہیں ہارا کرتے

        مجھ کو جبرانؔ لگا روگ محبت والا

        چارہ گر خاک مرے درد کا چارہ کرتے   (تمام دکھ ہے)

        وسیم جبران نے جہاں کیفیات وجذبات کی خوب صورت لفظی عکس بندی کی ہے وہاں شعری لغت کے کمال، مشکل زمینوں کے استعمال، زبان کی صفائی اور محاورے  اور نادر تشبیہات و استعارات سے دلگداز کیفیات میں ظاہری حسن بھی خوب رکھا۔ چند اشعار وسیم جبران کی فنی چابکدستی کے خوش نما رنگ کے طور پر ملاحظہ ہوں:

        کرچیاں چبھ رہی ہیں آنکھوں میں

        جب سے ٹوٹا ہے خواب شیشے کا

        برف ایسی پڑی پہاڑوں پر

        اجلی اجلی کپاس ہو جیسے

        اک لطیفہ ہے زندگی اپنی

        اس پہ اب قہقہہ تو بنتا ہے

        غصہ تو جیسے آپ کی ہے ناک پہ دھرا

        چڑھتا ہوا مزاج کا پارہ ہے آج کل

        چھپ گیا بادلوں کے پردے میں

        چاند بھی بے لباس ہو جیسے

        تمہیں بھی جبرانؔ میرؔ سے ہے کوئی تو نسبت

        ترا بھی سارا کلام دکھ ہے، تمام دکھ ہے   (تمام دکھ ہے)

        وسیم جبران دورِ حاضر کے شعرا میں پختہ شاعری کے حوالے سے ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ آرمی پبلک کالج مری کے اساتذہ و طلبہ کے لیے ان کی شخصیت اردو ادب کا استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکمال شاعر کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ پروردگار زورِ قلم میں مزید اضافہ فرمائے۔

        کتنے خوش بخت ہیں جبرانؔ پرندے سارے

        کاٹنے بونے کی کوئی فکر نہ گھر بار کا دکھ

مزید تحریریں