شام و سحر

تم سے کہنا تھا“ ایک جائزہ ”

hassan rashid

حسن رشید شامی

          وسیم جبران کے اولین شعری مجموعے ”تم سے کہنا تھا“ کی شاعری اپنی اصل میں محبت کی شاعری ہے۔ محبت ایک لازوال جذبہ ہے اور تخلیق کے بنیادی جوہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ وسیم جبران کی شاعری جذبوں اور تخیلات کا ایک حسین مرقع ہے۔ اس میں حسن کی رعنائی، عشق کی چاہت  اور سچائی جیسے موضوعات کی بھرمار ہے۔

          اس سلسلہ میں سب سے اہم اور ضروری چیز تخیل ہے جسے انگریزی میں Imagination کہتے ہیں۔ اسی قوت پر شعر کے عمدہ یا گھٹیا ہونے کا دارو مدار ہے۔ یہ ملکہ فطری ہوتا ہے اور محنت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ تخیل موجود ہو تو دوسری خوبیوں کی کمی کا کسی حد تک ازالہ کر سکتا ہے۔

 اگر شاعر کا تخیل زبردست ہو تو وہ ان دیکھی، فرضی اور خیالی چیزوں کو بھی اس قدر صحت، تفصیل اور اعتماد کے ساتھ بیان کرتا ہے جیسے کہ اس نے خود انہیں ملاحظہ کیا ہو اور ان کی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی ہو۔

          عرض کرتا چلوں کہ تخیل کی تعریف آسان نہیں ہے تاہم یہ ایسی قوت ہے جو ذہن میں تجربہ یا مشاہدہ کی بنیاد پر جو معلومات پہلے سے موجود ہوتی ہیں ان کو اچھی ترتیب دے کرایک نئی صورت بنا دیتی ہے اور پھر اسے ایک اچھوتے انداز میں پیش کرتی ہے۔ اسی تخیل کی وجہ سے شاعروں کا طریقہ بیان بڑا انوکھا ہوتا ہے۔مثلاً وسیم جبران کا ایک شعر ملاحظہ کریں۔

ایک دفتر ہے تیری یادوں کا

جیسے تالا پڑا ہوا مِل میں

          اس شعر میں مذکور الفاظ شاعر کے ذہن میں موجود تھے۔ دفتر کا خیال آتے ہی کام کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ کسی مِل یا فیکٹری میں تالے پڑے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ فیکٹری بند ہے، کام بھی بند ہے۔ ظاہر ہے شاعراگر یادوں میں محو ہے تو کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔ بس ایک ہی کام ہے کسی کو یاد کرنا۔ شاعر نے یاددوں کا دفتر اور مل میں تالے پڑنے کو بالکل نئے انداز اور نئے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ یہی تخیل ہے۔

          وسیم جبران کی شاعری میں حسن کی رعنائی اور رومانیت بھی اسی طرح سے موجود ہے جیسے بادِ نسیم کی نازک خرامی ہو۔ ان کے سینے میں ایک پیار بھرا دل دھڑکتا ہے۔ ان کے کلام میں لطیف و پر کیف  نرم و نازک رومانی فضا چھائی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً

کچھ تو مرا تعلقِ پنہاں تھا آپ سے

میں نے گلہ کیا ہے تو بے جا نہیں کیا

تو ملا تو مجھے یقین آیا

جوڑیاں آسماں پہ بنتی ہیں

اک شجر، نتھیا گلی اور گرم کافی کی مہک

جنوری میں تم کو تڑپائیں گی اکثر دیکھنا

          وسیم جبران کی شاعری میں سادہ بیانیہ اور روزمرہ گفتگو کا انداز بہت متاثر کن ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو کسی شعر کو زبانِ زدِ عام کرتی ہے۔ وسیم جبران کی شاعری میں سادگی اور سلاست کی بہت سی مثالین ملتی ہیں۔ ان کے ہاں غزل کا جمالیاتی تاثر ان کے طرزِ بیان، لہجے اور انداز سے نکھرتا ہے۔ اس وجہ سے ان کی غزل میں برجستگی، بے ساختگی، رعنائی، شوخی، خلوص اور پر کاری پیدا ہو گئی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔

اب جو برسوں کے بعد آئے ہو

اتنی زحمت کی کیا ضرورت تھی

تمہی نے دھڑکنیں ترتیب دی ہیں

یہ دل اب ٹھیک سے چلتا نہیں ہے

ایک دن میں آؤں گا

ہاتھ پر حنا رکھنا

          وسیم جبران کی شاعری میں سوز و گداز اور اداسی کی عکاسی بھی موجود ہے۔ شاعر غِم جاناں اور غِم دوراں کو اپنی مشاہداتی قوت سے بیان کرتا ہے۔ فطری طور پر سوز و گداز تو ہر انسان کی طبیعت میں پایا جاتا ہے۔ شاعر چوں کہ حساس ہوتا ہے اس لیے اس کا دل سوز و گداز سے بھرپور ہوتا ہے۔

وہ جب اپنے سوز کو افسردہ اور غمگین تراکیب سے ظاہر کرتا ہے تو اپنے سحر سے مسحور کر دیتا ہے۔ اسی شاعرانہ فنی چابکدستی سے شاعر قاری کے جذبات کو سمجھتے ہوئے انہیں زیبِ قرطاس کرتا ہے۔کلامِ جبران کا سوز و گداز ملاحظہ کیجیے۔

دل یہ کہتا ہے کہ ضبط اُس کا بھی ٹوٹا ہو گا

سرد شاموں میں کبھی وہ بھی تو رویا ہو گا

جب شوق سجاتا ہے، تری یاد کی محفل

ایسے میں کوئی دیکھنے والا نہیں ملتا

اشک دیکھے نہ وہ کبھی جبرانؔ

درد رکھنا پسِ انا دل کا

          وسیم جبران کے چند شعر بلا تبصرہ پیش خدمت ہیں۔

وہ جو کھڑکی تھی حویلی کی ہوا نے کھولی

ایک چڑیا تھی جسے لوٹ کے گھر جانا تھا

کوئی موسم بدلتا ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

کہیں جب پھول گرتا ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

مجھے مایوس کر سکتے نہیں حالات کیسے بھی

شبِ تاریک میں بھی مَیں اجالے یاد رکھتا ہوں

لمحہ لمحہ خوشیوں کا ہو یا دکھ درد کے موسم ہوں

مالک تو جس حال میں رکھے میں اس حال میں رہ لوں گا

مزید تحریریں