شام و سحر

شوکت صدیقی بطور ناول نگار

Dr Nisar Turabi

اردو میں لفظ ناول بطور ادبی صنف انگریزی سے وارد ہوا ہے اور انگریزی نے بی اسے اطالوی زبان سے درآمد کیا ہے۔ اطالوی زبان میں لفظ ناول ناولا سے نکلا ہے، جس کے عام فہم معنی نئی بات، انوکھی کتھا، حیرت انگیز حقیقت وغیرہ کے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اردو میں بھی ناول میں جدت ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ بقول ڈاکٹر کاسگنجوی:

“ناول کے معنی نئی یا نادر بات کے ہیں”1
بطور ادبی صنف ناول مقبول عام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر عمر ، صنف ، طبقے اور مکتبہ خیال سے متعلق فرد کے لیے دلچسپی کا سامان ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان کے الفاظ میں:

“ناول عصری، ماضی اور مستقبل کی زندگی کی حیرت انگیز کتاب ہے”2
انگریزی زبان و ادب کے موقر ادیب ڈی ایچ لارنس کے مطابق:
“ناول ہی ایک روشن کتاب زندگی ہے۔ کتابیں زندگی نہیں ہوتیں، محض خلا میں تھرتھراہٹیں ہوتی ہیں، مگر ناول بطور ایک تھر تھراہٹ کے سالم زندہ بشر کو لرزش میں لا سکتا ہےکہ شاعری ، فلسفہ، سائنس یا کسی اور کتابی تھرتھراہٹ سے بڑھ کر ہے”3

اردو ادب میں ناول ایک مستقل نثری صنف ادب ہے۔ اس کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ زندگی کو ادب کے سانچے میں ڈھال کر اس طور سے پیش کیا جائے کہ اس کی تمام گہرائیاں اور وسعتیں اس سانچے میں سما سکیں۔ ایسا ادب سوائے ناول کے کسی اور صنف میں ممکن ہی نہیں۔ ناول اور زندگی لازم و ملزوم ہیں اور زندگی سے مراد حقیقی زندگی یا اس کا قریب ترین عکس ہے۔ ناول نگار کو داستان نگار کے برخلاف اپنے تخیل کو حقیقی زندگی کے دائرے میں محدود رکھنا پڑتا ہے۔ اس نتکتے کی وضاحت انگریزی ناول نگار ہیری شا Harry Shaw نے کچھ یوں کی ہے:
“The navel has no actual maximum length. Every navel is an account of life, every navel involves conflict, characters, action settings, plot, and theme” 4

گویا ناول زندگی کی تفسیر و تصویر ہے اور اس میں مصنف و قاری کی خوابوں کی تعبیر بھی ہے۔ ناول نگار کی حیثیت ایک راہنما کی سی ہے، جو زندگی کے تجربات سے قاری کی ذہنی آبیاری کرتا ہے۔ اس کی باریک بین نظریں ، مطالعہ و تجربہ اس کے سامنے زندگی کے تجربات واضح کر دیتے ہیں اور جب اس کے افکار کرداروں کی زبان میں ادا ہوتے ہیں۔ تو قارئین بے اختیا کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ بالکل درست ہے۔ ایسا ہوتا ہے۔ بقول غالب:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے 5

ناول کو قبول عام عطا کرنے کے لیے یہ کلیدی عنصر ہے اور شوکت صدیقی کی ناول نگاری میں یہی عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو میں مثالی ناول مرزا محمد ہادی رسوا کا “امراؤ جان ادا” سمجھا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ناول کے تمام اجزائے ترکیبی ان کے یہاں نہایت مناسب توازن میں

برتے گئے ہیں۔ تقابل برطرف لیکن شوکت صدیقی کے یہاں ہمیں یہ صفت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
اردو ناول کی نگارش اور اس کے اسلوب کے سرسری سے جائزے کے مطابق تو انیسویں صدی میں ڈپٹی نذیر احمد سے اس کا آغاز ہوتا ہے ۔ نذیر احمد نے اپنی بچیوں کی اصلاح کے لیے ناول نگاری کا آغاز کیا اور یہ اصلاحی نقطہ نظر ان کی ابتدائی تحریروں میں جا بجا ہویدا بھی تھا۔ تاہم بعد ازاں وہ معتدل ناول نگار کے طور پر ابھرتے ہیں۔ اگرچہ اصلاح معاشرہ ، جو ان کا نصب العین تھا، کلیتہ ترک نہیں کرتے اور یوں اپنا مافی الضمیر خوبی سے بیان کر جاتے ہیں۔
بعد ازاں پنڈت رتن ناتھ سرشار اپنے ناولوں میں پیش کردہ تہذیبی رنگوں، مکالمہ نویسی، حسن کردار نگاری اور جزئیات نگاری کے باعث مقبول ہوئے اور ان

کے ناولوں میں اس دور کی لکھنوی تہذیب میں عوام الناس کے شب و روز حقیقی طور پر نمایاں ہوئے۔
ناول کی روایت آگے بڑھتی ہے تو ہم دیکھتے ہین کہ مولانا عبد الحلیم شرر نے اسلامی تاریخ کے تناظر میں اسلامی نشاۃ الثانیہ کے تصور پر قارئین کی تربیت کی خاطر ناول نگاری کی اور کامیاب رہے۔ پلاٹ کی مضبوطی ، کردار نگاری اور مخصوص فجا و ماحول کو قائم رکھنا ان کا طرہ امتیاز تھا۔
بیسویں صدی میں کہ جب فن ناول نگاری ارتقا کے کچھ ابتدائی مراحل طے کر چکا تھا، ہمیں اس صنف میں جو نمایاں نام ملتے ہیں ان میں پہلی شخصیت منشی پریم چند کی ہے۔ پریم چند انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے بنیاد گزار رہے اور ترقی پسند رجحانات کو عام کرنا ان کا مقصد رہا۔

تاہم حب الوطنی اور رومانیت بھی ان کے ابتدائی ناولوں میں جزو لانیفک کے طور پر ںظر آتی ہے۔ پریم چند کی ناول نگاری سے اردو ناول متوسط اور نچلے طبقے میں متعارف ہوا۔ ان کے یہاں دیہات اور شہر دونوں کے پس منظر میں ناول نگاری ہوئی جسے اردو ناول نگاری کی روایت میں ایک اضافہ قرار دیا گیا۔
اس کے بعد آنے والے ناول نگاروں میں ممتاز مفتی اپنی تمام تحریروں میں زندگی کے حقائق کی گتھی فلسفے سے سلجھاتے رہے اور اس میں کامیاب بھی رہے کہ ان کے ناول بھی قارئین میں مقبول رہے۔ اسی عہد میں انتظار حسین کے ناول فکری و تہذیبی اقدار کے انحطاط کا نوحہ بن کر سامنے آئے۔ اگرچہ ان کے یہاں موجودہ زندگی پر ماضی حاوی رہتا ہےتاہم وہ اچانک ماضی سے حال کا رشتہ استوار کر کے قاری کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کے فن پر قادر ہیں اور یہی ان کا کمال اور قبولیت کا کرشمہ ہے۔

قرۃ العین حیدر ایک عہد آفریں ناول نگار ہیں۔ ان کا طرز ناول نگاری بالکل جدا گانہ ہے۔ موضوع ، انداز بیان، اسلوب سب میں انفرادیت ہے۔ ان کے یہان تہذیبی و فکری فجا میں فرد کو مرکزیت حاصل ہے اور تاریخی ھقیقت نگاری اولین شرط۔ ان کے ناولوں کا وسیع کینوس انھیں ایک ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ موضوعاتی اور فکریاتی وسعت و آفاقیت میں آج بھی ان کا ثانی ناپید ہے۔

مذکورہ بالا ناول نگاروں اور ان کے فن ناول نگاری کے تذکرے کے بعد اگر شوکت صدیقی کی ناول نگاری کے تجزیاتی مطالعے کو زیرِ بحث لایا جائے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ترقی پسندانہ فکر کو بیسویں صدی مین کامیابی سے بیان کر دینے کی قدرت ان کے یہاں نمایاں ترین ہے۔ ان کے عہد کے ایک اور ترقی پسند ناول نگار عبداللہ حسین کے یہان بھی یہی تصور نمایاں ہے تاہم شوکت صدیقی کا منفرد انداز مکالمہ اور انداز کردار نگاری انھیں ایک جداگانہ مقام دیتا ہے۔ ان کے ناولوں میں فکری گہرائی بھی ہے اور سماجی گیرائی بھی۔ ان کی سوچ میں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور مذہبی پہلو فن کو فکری اساس عطا کرتے ہوئے جلوہ گر ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے بیانیے کا کمال یہ ہے کہ متنوع افکار کی کارفرمائی کے باوجود ماحول کسی ایک طرز فکر سے بوجھل نہیں ہونے پاتا۔ اردو ناول نگاری میں اس وصف کے باعث وہ مرزا محمد ہادی رسوا کے متبع نظر آتے ہیں۔

کہانی کو مقصدیت کے رنگ سے رنگنے میں ان کے یہاں نذیر احمد، عبد الحلیم شرر اور پریم چند سے اسفادے کا تاثر ملتا ہے۔ شوکت صدیقی کے عہد کی سماجی بنیادوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس دور میں فکری و سماجی سطح پر بہت سی تبدیلیاں واقع ہو رہی تھیں۔ ایسے میں شوکت صدیقی کی ناول نگاری میں زندگی کو معروضی نقطہ نظر سے برتا گیا ہے۔

کمین گاہ، خدا کی بستی، چار دیواری اور جانگلوس، سبھی زندگی کی اسی معروضحی بنت سے لبریز ہیں۔ شوکت صدیقی ترقی پسند ادبا میں نمایاں مقامم رکھتے ہیں اور ان کا عہد بجائے خود ترقی پسند فکری رجحانات کے عروج کا عہد تھا۔ اردو میں اس زمانے میں ایک نئے طبقاتی اور سماجی شعور نے جنم لیا۔ شوکت صدیقی بھی اس مقصدیت اور فکر کے نمائندہ ناول نگار کے طور پر سامنے آئے۔ تاہم زندگی کا حقیقی عکس دکھا دینے کا وصف ان کے یہاں ہر ناول میں سحر انگیز اور اثر انگیز صلاحیت کے طور پر سامنے آتا ہے۔

چوں کہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ فلسفے میں کسان اور مزدور ہر دو کے حقوق کی بات ہوئی، شوکت صدیقی نے بھی اپنے ناول “خدا کی بستی” میں ایک نئے ملک میں زندگی کی سماجی ، سیاسی، معاشی، معاشرتی اورتہذیبی اقدار کی از سر نو بنت کو ایک بڑے اور صنعتی و کاروباری شہر کراچی کے تناظر میں استحصالی معاشرت پر مزاحمتی لہجے کے طور پر پیش کیا۔ راجہ، نوشا اور کامی جو ایک نچلے طبقے کے کم سن بچے ہیں زندگی کی کٹھنائیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ جنھیں اپنے اپنے گھروں میں بھی آسائش، محبت اور توجہ حاصل نہیں ہے لہٰذا حالات سے تنگ آ کر اور ڈانٹ اور گالی گلوچ سے بچنے کے لیے یہ بچے آوارہ گردی ، سینما بینی اور تاش وغیرہ میں جائے پناہ ترلاش کرتے ہیں۔ اس بیانیے میں شوکت صدیقی کے جواہر حقیقت نگاری ، عمدہ منظر نگاری اور مشاہدے کی باریک بینی عیاں ہوتی ہے۔ (جاری ہے)

مزید تحریریں