شام و سحر

(2) شوکت صدیقی بطور ناول نگار

Dr Nisar Turabi

شوکت صدیقی نے بھی اپنے ناول “خدا کی بستی” میں ایک نئے ملک میں زندگی کی سماجی ، سیاسی، معاشی، معاشرتی اورتہذیبی اقدار کی از سر نو بنت کو ایک بڑے اور صنعتی و کاروباری شہر کراچی کے تناظر میں استحصالی معاشرت پر مزاحمتی لہجے کے طور پر پیش کیا۔ راجہ، نوشا اور کامی جو ایک نچلے طبقے کے کم سن بچے ہیں زندگی کی کٹھنائیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ جنھیں اپنے اپنے گھروں میں بھی آسائش، محبت اور توجہ حاصل نہیں ہے لہٰذا حالات سے تنگ آ کر اور ڈانٹ اور گالی گلوچ سے بچنے کے لیے یہ بچے آوارہ گردی ، سینما بینی اور تاش وغیرہ میں جائے پناہ ترلاش کرتے ہیں۔ اس بیانیے میں شوکت صدیقی کے جواہر حقیقت نگاری ، عمدہ منظر نگاری اور مشاہدے کی باریک بینی عیاں ہوتی ہے. ان کے ناول کا ایک مکالماتی منظر ملا حظہ ہو:

” گلی کی نکڑ پر میونسپلٹی کی لالٹین روشن تھی ۔ لالٹین کی روشنی میں محلے کے پکچھ نوعمرلڑ کے بیٹھے تاش کھیل رہے تھے ۔ان میں سب سے بڑا راجہ تھا ۔ وضع قطع سے آوارہ گرداور لفنگا نظر آتا تھا۔ بڑے بڑے الجھے ہوئے بال پھٹی ہوئی بوسیدہ قمیض اور گلے میں بندھا ہوامیلا کچیلا ریشمی

رومال بلی جلی آوازوں کے شور میں وہ بار بار چیخ کر کہتا’’ کہواستاد! کیسا بچہ کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں شامی تھا۔ وہ دبلا پتلا تھا اور قد میں بھی ذرا د بتا ہوا تھا۔ آنکھوں سے شوخی جھلکتی تھی۔ مزاج کا بھی تیز تھا۔ لالٹین کے نیچے اب صرف راجہ، شامی اور نوشا رہ گئے تھے ۔ راجہ نے جیب سے ایک مڑی تڑی سگریٹ نکالی ، سلگائی ، دوتین لمبے لمبے کش لیے اور ایک روپیہ نکال کر بولا ابے! سنیما چلنا ہے؟ آج تو یارلوگ’’بغداد کا چور‘‘ دیکھیں گے ۔ باپ قسم ایسی فسٹ کلاس پکچر ہے لطف آ جائے گا ۔‘‘6

شوکت صدیقی ان تینوں کرداروں کی حالت زار، ان کی محرومیاں ،تربیت کے مواقع کا فقدان وغیرہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ نچلے طبقے کی زندگی کا ایسا بھرپور نقشہ کھینچتے ہیں کہ قاری چشم تصور سے خود کو کسی ایسی ہی

بستی میں موجود پاتا ہے ۔ کرداروں کی ہیت کذائی ، ان کے معمولات ، انداز گفتگو اور الفاظ کا چناؤ اور اندازنگارش ایک ایسی دوا ہے، جو ان کی سحر بیانی اور مقصدیت کو گو یا غیر محسوس طریقے سے مخاطبین ، قارئین اور

ناظرین کو گو یا گھول کر پلا دی جاتی ہے لکھنوی تہذیب میں آنکھ کھولنے والے شوکت صدیقی کہانی کو ڈرامائی انداز میں سسپنس کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے کراچی کے نچلے طبقے کے آوارہ نو جوانوں کے مکالمے بھی اس

قدر حقیقی انداز میں پیش کرتے ہیں کہ جس سے ان کے مشاہدے کا انسلاک نمایاں ہوتا ہے ۔

معاشرے کے جرائم پیشہ عناصر کس طرح تین کم سن کرداروں کو اپنی راہ پر لگاتے ہیں ، اس کے لیے نیاز کباڑیے‘ کا کردار لاتے ہیں ، جس کے گھر میں نوشا کی والدہ  بطور کرایہ دار مقیم ہوتی ہے ۔کرایہ دینے جب نوشا

اس کے پاس جا تا ہے تو وہ اسے جرم کی ترغیب دیتا ہے بل کہ با قاعدہ طریقہ کا رسکھا تا ہے ۔

”ابے توشے! آج کل تو کیا کرتا ہے؟ نوشا نے جواب دیا عبداللہ مستری کی ورکشاپ میں کام سیکھ رہا ہوں. موقع لگے تو کبھی کبھار کوئی پرزہ یا اوزاراڑ دیا کر۔ اس سالے پاپی کا مال کھانا ثواب کا کام ہے۔ کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں؟ بس سیدھا آجایا کر ۔ چائے پانی کا خر چ نکل آۓ گا ۔ میں نے تو سنا ہے تجھے تو فلم دیکھنے کا بھی بہت شوق ہے ۔نوشا سہما ہوا تھا۔

یہ کہنے لگا ’’ کہیں مستری کو پتا چل گیا تو میری شامت آ جائے گی ۔’’ نیاز اپنے ڈھب پر لانے کے لیے اکسانے لگا۔ابے! جب اس سالے کو پتا لگے کا تب ۔بس ذرا ہوشیاری کی ضرورت ہے، دکھ میں تجھے ترکیب بتاؤں گا‘‘ اس نے پرزے چرانے کے کئی طریقے نوشا کو بتائے۔ 7

اپنے کرداروں نیاز ، راجہ ، شامی اور نوشا کی صورت میں شوکت صدیقی نے جرائم کی گھناؤنی دنیا کی جس طرح پردہ کشائی کی ہے اس کا تعلق بھی حقائق کی سماجی بنیادوں سے ہے ۔ دوسری طرف ترقی پسند رجحانات کا

حیات انسانی کی مدد سے جومقد مہ وہ قاری کے لاشعور کے سامنے لڑ رہے ہیں ، ان کے دلائل سے قاری کے ذہن میں غیر محسوس طریقے سے واضح ہوتا چلا جا تا ہے ۔ بادی النظر میں یہ ایسے شخص کا بیانیہ معلوم ہوتا ہے، جس کا اپنا پس منظر بھی اسی طبقہ انسانی سے رہا ہو، جب کہ حقیقت سراسر اس کے برعکس ہے، جو شوکت صدیقی کے واقفان حال کو مز ید حیرت سے دو چار کر دیتی ہے ۔

شوکت صدیقی ایک جانب تو مدنیت کا اس قدر بھر پورعکس’’خدا کی بستی میں جا بجا پیش کرتے چلے جاتے ہیں اور انسانی سماجیات کے جملہ پہلوؤں پر اپنے مطالعہ کی گہرائی اور تجربے کی وسعت کا حصاراس خوبی سے کھینچتے ہیں کہ قاری چاہے بھی تو اس سے باہر نہیں جا سکتا اور دوسری جانب پنجاب کی دیہی زندگی مشتمل ناول “جانگلوس”  میں مکالموں اور منظر نگاری کے باوصف ایسا ہی حقیقی رنگ بھرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو انگشت

بدنداں کر دیتے ہیں ۔ جانگلوس کے کردار’’لالی‘‘ کے ذریعے شوکت صدیقی زندگی کی کئی تلخ ، سفاک اور مکروہ  حقیقتیں پیاز کی پرتوں کی طرح نہایت مشاقی سے کھولتے چلے جاتے ہیں۔ لالی کا دنیا میں کوئی خونی رشتہ باقی

نہیں ہے لیکن وہ اپنی فطری انسانی ہمدردی کے باعث دوسروں کی زندگی بچانے کی خاطر اپنے تئیں خطرے میں ڈال لیتا ہے ۔ ناول کا کردار’’ حیات محمد‘‘ ایک بیوروکریٹ ہے، جو اخلاقی پستی اور مفاد پرستی میں تمام انسانی

اقدار کو پامال کرتے ہوۓ فقط ہوا و ہوس اور زر کا پجاری بن جا تا ہے ۔ اس کی بیوی جب اپنی دکھ بھری کتھا’’لالی‘‘ کے سامنے بیان کرتی ہے تو اس کیفیت کو ، مکالماتی اسلوب کو کیا قرینہ ملتا ہے اس کے لیے شوکت

صدیقی کا بیانیہ ملاحظہ ہو:

“حیات محمد چاہتا ہے کہ میں اس کے مہمانوں کا دل بہلاؤں ،ان کے ساتھ سوؤں‘‘، اس کی آواز بھرا گئی ،اس نے ٹھنڈی سانس بھری ۔’’ میں اب تک آٹھ مہمانوں کے پاس سو چکی ہوں ۔ کل رات وہ مجھے نویں کے پاس سلا نا چاہتا تھا ۔اسے وہ سیاست کہتا ہے۔ بادشاہ گری بتا تا ہے اور جب میں اس کی سیاست اور بادشاہ گری میں مدد کرنے سے انکار کرتی ہوں تو مجھے بے رحمی سے مارتا ہے ۔ ہڈی پسلی توڑ دیتا ہے ،لہولہان کر دیتا ہے ۔ تجھے کس طرح بتاؤں کیسے کیسے ظلم کرتاہے ….. وہ جا گیر دار جائیداد کے بغیر کسی سے بھی پیار نہیں کرتا‘‘، فاخرہ نے گہری سانس بھری ۔ جب تک یہ جا گیر و جائیداداور زمین داری ہے نہ وہ اپنی بیٹی کا پیو بن سکتا ہے اور نہ میرا شوہر” 8

در حقیقت شوکت صدیقی نے پاکستان آنے کے بعد ساجی ، سیاسی اور اخلاقی گرواٹ اور انتشار سے ایسا اثر لیا کہ اس کا اظہاراسی سفاکیت سے ان کے قلم سے بھی ہونے لگا ، جس طور وہ موجود تھا۔ ان کی تمام تحریروں میں ہمیں

سماجی بنیادوں کو تبدیل کرنے کی خواہش نظر آتی ہے ۔ بالخصوص ’’خدا کی بستی‘اور’’جانگلوس‘ کا بنیادی نکتہ بھی یہی ہے ۔’’ خدا کی بستی” میں وہ نچلے طبقے یعنی مزدور کی زندگی کی تلخیاں بیان کرتے ہیں اور سرمایہ دار کے

خلاف ذہن سازی کرتے ہیں فن کے وسیلے سے انسانیت اور تکریم انسانیت سے جڑی ہوئی مقصدیت کی اجلی لو روشن کرنے کی آرزو میں اپنے دوسرے قابل تحسین ناول’’جانگلوس‘‘ میں وہ کسانوں کی حالت زار پر فکرمند رہتے ہیں اور جاگیر دار و جا گیرداری نظام کی بنیادوں میں موجود انسان دشمن رویوں کی نشان دہی کرتے ہیں ۔

شوکت صدیقی فنی برتاؤ کے تعلق سے حقیقی زندگی کی ایسی بھر پور عکاسی کرتے ہیں کہ ان کے تخلیق کردہ کر دار عصری زندگی کے جیتے جاگتے کرداروں کا روپ دھار لیتے ہیں ، تاہم ان کی حقیقت نگاری حقائق کا بیان

محض نہیں ہے ۔ اس کا یہ قطعا مطلب نہیں ہے کہ تمام مشاہدات و تجربات من وعن بیان کیے جائیں بل کہ حقیقت تخیل حسن وآہنگ کا جو بہترین امتزاج تشکیل پاتا ہے ، درحقیقت وہ لائق تحسین ہوتا ہے اور یہ لائق تحسین فنی

امتزاج شوکت صدیقی کی تحریروں کا خاصا ہے ۔

ناول کی بنت ہی حقیقت نگاری ہے ، چنانچہ اس میں موجود تمام کردار ہماری حقیقی زندگی کا پر تو اور غماز ہوں تو ناول کی صنف ناول کہلانے کی حق دار ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے شوکت صدیقی کی نگارشات کا جائزہ لیا

جاۓ تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ ان کے تمام ناولوں میں نہایت ذکاوت ، اعتدال اور فنی مہارت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان ان کے فن پر راۓ دیتے ہوۓ لکھتے ہیں :

“شوکت صدیقی ترقی پسندوں کی بھیڑ میں ایک ایسے حقیقت نگار کی حیثیت سے برآمد ہوۓ جنہوں نے اپنے مخصوص نظریات کوفنی دائروں میں رکھ کر پیش کیا ۔ جمالیاتی حسن کی آبیاری بھی کی اور اپنے پڑھنے والوں کو متاثر بھی کیا ۔‘‘9

وہ  ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ ان کی پختہ حقیقت نگاری کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ترقی پسندوں کی طبقاتی نظام پر یوں بھی نظر عمیق رہا کرتی ہے کہ ان کی تحریروں میں واقعیت نگاری کے تمام فنی پہلواور معاشرتی سانجھ بھر پورا نداز میں دخیل و کارفرما رہتی ہے ۔انھوں نے معاشی ابتری و ساجی تغیرات کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے اور بعدازاں ان کے ترقی پسند خیالات و نظریات اور حقیقت کے متوازی استعمال سے ان کے لیے ایک نئی سمت اور جد ید جہت وضع کرنا ممکن ہو گیا۔ یہ سمت و جہت دراصل ان کی حقیقت نگاری ہی تھی ۔ ناول نگاری میں اس درجہ حقیقی پہلواردو میں شوکت صدیقی نے متعارف کروایا ۔ مزید یہ کہ اس حقیقت نگاری اور معنویت کو خواص و عوام کے لیے جس قدر تی انداز میں قابل مطالعہ بنا کر پیش کیا گیا، اس پر ان کی خداداد صلاحیت فنی پختگی ، وسیع تفکر ، جزیات کا مشاہدہ اور بار یک بین تجربے کی داد دینا پڑتی ہے ۔ ان کی حقیقت نگاری خیالات و نظریات سے عاری نہیں ہے۔ ان کی تحریروں سے ان کے فن کے بارے میں تصورات بھی عیاں ہوتے ہیں ۔ان کے اسلوب کے بنیادی اور نمایاں وصف حقیقت نگاری کو اساس بناتے ہوئے پروفیسر عتیق احمد

اپنے ایک مضمون بعنوان’’ شوکت صدیقی کے افسانوں میں حقیقت نگاری‘‘ میں لکھتے ہیں:

“شوکت کے افسانوں میں سسپینس (Suspense) کے عنصر سے کوئی ماورائی کیفیت بھی نہیں ہوتی بل کہ واقعات اور حالات میں یہ موڑ علاوہ اسباب اور وجوہ کی منطق کے تحت آ تا ہے ۔ ہر چند یہ موڑ بعض اوقات خاصا غیر متوقع ہوتا ہے لیکن افسا نہ ختم ہونے کے بعد اس کی منطقی وجوہ از خود سمجھ میں آ جاتی ہیں ۔فنی تکنیک کا عمل حقیقت نگاری کا سائنٹفک طریقہ کار

ہے ۔ اس طریقے کو برت کر شوکت صدیقی نے اپنے کرداروں میں وہ صفات پیدا کی ہیں کہ ان کا ہر کر دارا پنی پوری قوم کا نمائندہ کردار بن جا تا ہے اور ساتھ ہی اپنی انفرادی سطح پر ایک فرد کی ذات کے خارج اور باطن کو آشکار کر کے اپنے ماحول اور گردو پیش کی پیچیدہ روی کے عمل کا مظہر بھی بن جاتا ہے اور حالات کے پیچ وخم سے گزرتے ہوۓ زندگی کے کسی نہ کسی دور میں ان گتھیوں کے بندھنوں کو توڑ کر اپنے ماحول میں بسنے والوں کو نجات کا راستہ سمجھا جاتا ہے ۔ نتائج کا اس طور پر منضبط ہونا دراصل مادی حقیقتوں کی ادلتی بدلتی ماہیتوں کے دباؤ کے تحت ایک غیر فطری صورت حال کو قبول کر لینے کے بعد کا ٹکراؤ ہوتا ہے جس میں بالآ خر تخیلاتی

اور غیر فطری دباؤ کا تانا بانا ٹوٹ جا تا ہے اور کھردری حقیقت سامنے آ جاتی ہے ۔‘‘ 10

شوکت صدیقی نے حقیقت نگاری کا جو معیار اپنے تخلیق کر دہ ادب میں پیش کیا ہے وہ ان کے ہر ناول میں آغاز تا اختتام روح کی طرح موجود رہتا ہے ۔ وہ اجتماعی زندگی کی خرابیوں اور برائی کی طاقتوں کو ظاہر کرتے ہیں

اور ساجیات کی جملہ حقیقتیں سامنے لاتے ہیں ۔ خلوص اور حقیقت کو ایک ساتھ برتنے کی جوفنی پختگی ان کے یہاں ملتی ہے اس سے ان کی فنکاری کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔اپنی تمام تحریروں میں معاشرے کے حقائق کو مجموعی طور پر اس طرح بیان کیا ہے کہ ان کا مرکزی تصور ماحول وافراد کی پیدا کردہ خامیوں اور زندگی کے انتشار کا آئینہ بن جا تا ہے ۔ ان کے پیش کردہ موضوعات ، کرداران موضوعات و کردار کا حامل سماج اور جرم کی دنیا اس قد روابستگی لیے ہوئے ہیں ، جو ہمیں ان سے پہلے کم کم ہی کسی ادیب کے یہاں ملتی ہے ۔

(مطبوعہ’’ سہ ماہی ادبیات ،اسلام آباد ( شمارہ:۱۲۱۔۱۲۲، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۹)

حوالہ جات

1۔ ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی ’’جدید ناول کے انقلابی اوراق‘، ادبیات ،اکادمی ادبیات ،اسلام آباد، جلد ۱۳، شماره ۵۳ ، خزاں ۲۰۰۰ء،ص۱۳۴

2۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان’’اردوناول کے چند اہم زاویے انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی ۲۰۰۳، س ۸

3۔ ڈی ایچ لارنس فکشن فن اور فلسفہ مترجم مظفرعلی سید ،مکتبۂ اسلوب ،کرا چی ۱۹۸۲، ص۳۶

4۔ Dictionary of Literacy Terms by Harry Shaw, P, 257_

5۔ دیوان غالب ’’اسد اللہ خان غالب‘‘(مرتبہ ) محدشفیع علی ہجویری پبلشرز ، لاہور،۲۰۰۰ ص ۱۰۵

6۔ شوکت صدیقی ’’خدا کی بستی‘‘ کتاب پبلی کیشنز کراچی ،۲۰۰۹ ۹۶-۱۰

7۔ ایضا،ص:۲۳،۲۲

8۔ شوکت صدیقی ’’جانگلوس‘‘ جلداول، کتاب پبلی کیشنز کراچی ۲۰۰۸ء،ص ۲۰۰،۱۹۹

9۔ ممتاز احمد خان ، ڈاکٹر آزادی کے بعد اردو ناول‘‘انجمن ترقی اردو پاکستان ،۱۹۹۲ء،ص ۱۸۷

10۔ عتیق احمد پروفیسر ،شوکت صدیقی کے افسانوں میں حقیقت نگاری ،مشمولہ ماہنامہ چہارسو ( شوکت صدیقی نمبر )،

راولپنڈی ، مدیر گلزار جاوید ،جلد : 1، شمارہ مارچ اپریل ۲۰۰۱ء

مزید تحریریں