شام و سحر

اقبال کا پیغام: حرکت وانقلاب اور ہمارے جوان

ہارون الرشید

                   علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے نہ صرف عظیم شاعر ہیں بلکہ عظیم فلسفی‘ مفکر اور دور بین دانشور ہیں۔ اقبال جیسے شعرا اور دانشور دنیا میں بہت کم نظر آتے ہیں جن کی فکر نے مشرق ومغرب کو یکساں متاثر کیا۔ ہمارے لئے وہ مصور پاکستان ہیں۔ ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا انقلاب فکراقبال کا مرہون منت ہے اقبال کو شاعر مشرق کا لقب بھی دیا گیا ہے جنھوں نے مغرب کے گوئٹے کے پیغام کا جواب پیام مشرق کو نظم بند کر کے دیا۔

دنیا کی کئی زبانوں میں ان کے منشور اور منظوم  تراجم ہو چکے ہیں۔ عربی۔ ایرانی اور اردو زبانوں میں ان کے نغموں کی گونج ہر سو آج سنائی دیتی ہے۔

                   عموما اقبال کے جن نظریات کو زیر بحث لایا جاتاہے ان میں نظریہ عقل وعشق‘ خود ی، شاہین‘ نظریہ اجتہاد‘ مومن کی شان‘ عاشق اللہ تعالیٰ ورسول اکرم ﷺ‘ کلام اقبال میں لا الہ اللہ کا تصور‘اقبال اور قرآن اور شکوہ وجواب شکوہ زیادہ اہم ہیں لیکن دو ر حاضر کے حوالے سے اقبال کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو ان کے منشور اور منظوم کلام میں جوانوں سے امیدیں اور ان کی رہنمائی کے متعلق بہت سا مواد موجودہے چنانچہ مضمون ہذا کا عنوان بھی جوانوں کے حوالے سے اقبال کے تصورات اور ارشادات ہیں۔

                   اقبال کے کلام کا منظر نامہ جائزہ لیا جائے تو درج بالا تمام نظریات ان کے جوانوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اقبال کو اپنے جوانوں سے بہت امیدیں ہیں۔ ان کا تصور خودی ہو یا شاہین کا یا اپنے بیٹے جاوید کے نام نظمیں ہوں درحقیقت ان میں نوجوان نسل کے لئے ایک اجتماعی پیغام ہے وہ جوانوں  کے لئے دعا کرتے ہیں۔

                   جوانوں کو مری آہ سحر دے             پھر ان شاہین بچوں کو بال وپردے

                   خدایا! آرزو میری یہی ہے                مرا نور بصیرت عام کردے

                   مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اقبال نوجوان نسل کو جمود کے دور سے نکال کر آگے بڑھنے کے لئے انگیخت کرتے ہیں۔ علامہ اقبال جوانوں کو تبدیلی اور ارتقا کی طرف راغب کرتے ہیں مغرب میں آنے والی تبدیلیوں اور اپنے خطے کے جمود پر وہ یوں اظہار رنج کرتے ہیں۔

                   وہاں دگر گوں ہے لحظہ لحظہ

                   یہاں بدلتا نہیں زمانہ

                   اصل میں نئے معرکے کی سکت جوانوں میں ہوتی ہے۔ وہی جرأت و پامردی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری نوجوانوں کو مادی علم کی حدوں سے نکل کر چیزوں کی معنویت اور روحانیت پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

          نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

                   تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

وہ یوں بھی فکر انگیز کرتے ہیں

                   تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا

                   ترے سامنے آسمان اور بھی ہیں

وہ یہ بھی کہتے ہیں

                   پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا  میں

                   کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

                   جو لوگ مادی مقاصد کے لئے علم حاصل کرتے ہیں وہ کرگس بن کر رہ جاتے ہیں ان کی ساری ہمتیں ذاتی مفاد کے تابع ہوتی ہیں جبکہ شاہین پست پرواز نہیں ہوتا بلند پرواز ہوتا ہے اور اس کی نگاہ تیز ہوتی ہے اور یہی چیزیں ترقی اور ارتقا کی علامت ہیں۔

                   اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت  اچھی

                   جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

                   اس کا مطلب ہے ہمارے جوان خوددار نہیں۔ ایسی امداد مت قبول کریں جو آپ کی پرواز کو کوتاہ کر دے۔ جدید عالمی معاشی نظام نے بھی قوموں سے آزادی فکروعمل چھین لی ہے اگر طائر لاہوتی کے استعار ے کو پیش نظر رکھا جائے تو اقبال کی بلند پروازی‘ بلند اخلاقی اصولوں پر استوار معاشی نظام کا تقاضا کرتی  ہے۔

                   اقبال کا نظام تعلیم بھی ارتقا پسندانہ اور جامع ہے  اور اس نظام تعلیم میں مستقبل کے اچھے دنوں کی نوید ہے وہ اپنے جوان کو اپنے ماضی سے بھی باخبر رکھتے ہیں۔ تبدیلی یا ارتقا کا یہ مقصد نہیں کہ ہم اپنی اچھی روایات کو بھول جائیں بلکہ ان روایات کو سامنے رکھ کر دنیا کی قیادت کرنے کی تیاری کریں۔

                   سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ عدالت کا‘ شجاعت کا

                   لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

                   اقبالؒ اپنے جوانوں کی تن آسانی پرخون  کے آنسو روتے ہیں وہ اپنے جوان کی غیرت کو للکارتے ہیں وہ نوجوان کو سچا مسلمان بنانا چاہتے ہیں اس لئے انھوں نے نوجوانوں پر اپنے اعلیٰ اصولوں اور اعلیٰ اسلامی صفت سے بے بہرہ ہوجانے پر بڑا بھر پور طنز کیا ہے اور ان کو اپنے اندر اصل مومنانہ شان پیدا کرنے کے لئے ان کی غیرت کو للکارا ہے۔

                   افسوس صدا افسوس کہ شاہین نہ بنا تو

                   دیکھے تیری آنکھوں نے نہ فطرت کے اشارات

                   وہ فریب خوردہ شاہین جو پلا ہو کر گسوں میں

                   اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ  و  رسم شاہبازی

                   اس کے بعد اقبال نوجوان کو متحرک اور بلند پرواز اور اپنے مقاصد عالیہ پورا کرنے کے لئے یکسوئی اور فکرکی پختگی کا درس دیتے ہیں ان صفات کی بدولت آدمی ہر طرف سے ہٹ کر اپنے مقصد کی طلب اور جستجو میں سرگرم عمل ہو جاتاہے اپنے شکار پر جھپٹتا ہے اور اپنے مقاصد کو حاصل کر کے دم لیتا ہے۔

                   کوہ شگاف تیری ضرب‘ تجھ سے کشاد مشرق ومغرب

                   تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر

                   گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار

                   طائرک بلند بال دانہ ودام سے گزر

                   اقبال نوجوان کی اصلاح کے لئے مختلف انداز اپناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین‘ آسمان‘ چاند‘ ستارے سب انسان کے لئے مسخر کر دئیے ہیں لیکن انسان کو ان پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی حیثیت اور مقام کا ادراک رکھنا چاہیے۔

                   نہ  تو زمین کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے

                   وہ بارہا دلائل  وبراہین سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ثبات تغیر کو ہے زمانے میں۔ جب انسان زمین پر آگیا تو اسے اپنے تخلیقی مقاصد کے حصول کے لئے اسی تغیر کے اصول کو اختیار کرنا پڑے گا وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے جب وہ بلند پروازی کا جذبہ اختیار کرے گا تو ساری کائنات اس کے متحرک کردار سے سہم جائے گی۔

                   عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

                   کہ یہ ٹوٹا ہواتارا  مہ کامل نہ بن جائے

بلکہ انسان خود پکارتا ہے

                   باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

                   اقبال کی یہ نظم تو جوانوں کو بلند پروازی اور دعوت جرات وہمت سے عبارت ہے اور انھیں ایک مضبوط اور عالمگیر کردار ادا کرنے کے لئے زبردست تحریک دیتی ہے

                   ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

                   ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

                   علامہ اقبال   بڑے واضح انداز سے نوجوانوں کو تغیر وثبات کے عناصر کو ساتھ ساتھ رکھنے کا درس دیتے ہیں۔ رجعت پسند قوتوں کے مقابلے کے لئے تیار کرتے ہیں  وہ انھیں مستقبل کا معار بنانا چاہتے ہیں۔ ہم پر اقبال کا حق ہے اور اس حق کو ادا کرنا ہے کہ ہمیں اقبال کا پیغام نوجوان نسل تک پہنچانا ہو گا اس کے لئے سنجیدگی کے ساتھ ہر سطح کے نصاب میں اقبال شناسی کا حصہ شامل کرنے کی ضرورت  ہے تاکہ اپنے مستقبل کو تابناک اور محفوظ بنایا جاسکے۔ اقبالؒ کا پیغام حرکت وانقلاب کل بھی قابل عمل تھا اور آج بھی۔ ہم اس کو اپنا کردنیا بھر میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتے ہیں

مزید تحریریں