شام و سحر

مرد کو درد نہیں ہوتا

Mard ko dard nahein hota

فائز جبران

”چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں، دنیا کے رسم و رواج توڑ دیں“ مہدی حسن کی آواز میں یہ نغمہ تو آپ نے سنا ہوگا۔ یہ سماج بڑی ظالم چیز ہے۔ عام طور پر تو محبت کرنے والے یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔مگر ہم ایک اور پہلو پر بات کرنا چاہیں گے۔کہنے کو یہ مردوں کا معاشرہ ہے جس میں مرد کی حاکمیت قائم ہے اور خواتین ہر فورم پر احتجاج کرتی نظر آتی ہیں کہ انہیں ان کے حقوق نہیں دیے جاتے۔ لیکن ذرا مردوں کی حالتِ زار بھی ملاحظہ کیجیے۔

یہ سماج مردوں سے کیا توقعات رکھتا ہے۔جس دن کسی گھر میں بیٹا پیدا ہوتا ہے اسی دن سے توقعات شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک چھوٹا بچہ اگر اندھیرے سے خوف کھاتا ہو،کسی کیڑے مکوڑے یا کاکروچ سے ڈر جائے تو فوراً طننز کے تیر برسائے جاتے ہیں کہ تم لڑکے ہو کر ڈرتے ہو۔یعنی ڈرنا صرف لڑکیوں کا حق ہے۔ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی برابر ہیں لہٰذا ان کے ساتھ برابری کا سلوک ہونا چاہیے دوسری طرف لڑکے کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر صورت میں کوئی نوکری کرے یا کام کرے اور گھر کا خرچ چلائے۔

خواتین کی بعض تنظیمیں زور شور سے یہ نعرے لگواتی ہیں ”اپنا کھانا خود گرم کریں“ اور یہی خواتین تیز بارش میں اپنے خاوندوں کو مارکیٹ بھیج دیتی ہیں کہ دہی بھلے لے آئیں۔ہمارے اس سماج میں یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ بس میں خواتین کے لیے سیٹ چھوڑ دی جائے۔کسی راستے سے گزرنا ہو تو خواتین کو پہلے جانے دیا جائے۔خواتین کے ساتھ بحث نہ کی جائے وہ چاہے ترکی بہ ترکی جواب دیتی جائیں۔یہ مساوات تو نہیں ہے۔ لیڈیز فرسٹ کا فارمولہ بھی اسی ظالم سماج نے ایجاد کیا ہے۔ ماڈرن ماحول میں بھی یہ فرق قائم رہتا ہے۔

مثلاً اگر کوئی ماڈرن لڑکی کسی سے ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے اور لڑکا ہاتھ پیچھے کھینچ لے تو اسے اجڈ، گنوار، بد تمیز، بنیاد پرست جیسے القابات سے نوازا جائے گا اور اگر ا سی ماڈرن ماحول میں ایک لڑکا پہلے ہاتھ آگے بڑھا دے اور اتفاق سے وہ لڑکی ہاتھ پیچھے کھینچ لے توبھی اس لڑکے کو آوارہ، لوفر، گھٹیا اور  بدمعاش جیسے القابات دیے جائیں گے۔ ہر دو صورتوں میں وہ گنہگار ٹھہرے گا۔ جب شادی کا وقت آتا ہے تو لڑکی والے اکثر یہی کہتے ہیں کہ ہماری لڑکی کو خوش رکھنا۔داماد گھر آئے تو پوچھا جاتا ہے ہماری بیٹی وہاں خوش تو ہے ناں؟

کبھی کسی نے داماد سے نہیں پوچھا کہ تم بھی خوش ہو یا نہیں؟اولاد  اگر اچھی ہو تو سب کہیں گے۔”کیا بات ہے، ماں نے بہت اچھی تربیت کی ہے۔“ اور اگر اولاد نکمی اور خود سر ہو فوراً کہیں گے ”ان کے باپ نے تو کبھی اپنی ذمہ داری سمجھی ہی نہیں، اولاد کو بگاڑ کر رکھ دیا۔“ سب سے بڑھ کر تو یہ ہے کہ عورتیں جب چاہیں کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کر دیں  کوئی انہونی بات نہیں سمجھی جائے گی لیکن اگر مرد کے جذبات ظاہر ہو جائیں تو فوراً انگلیاں اٹھیں گی۔ عورت غم و غصے میں چیخے چلائے تو خیر ہے مرد ایسا کرے تو کہاجاتا ہے کہ اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنا چاہیے تھا۔

لڑکی ہر وقت ہنستی رہے تو کہا جاتا ہے کہ کتنی ہنس مکھ ہے۔ لڑکا زیادہ ہنستا ہو تو کہتے ہیں کیا مسخرہ پن ہے، سیرئیس ہو جاؤ۔ لڑکیوں کو میچنگ نیل پالش نہ ملے تو آرام سے آنسو بہا سکتی ہیں لڑکے کی پہلی محبت کی شادی اسی کے کزن سے ہو رہی ہو تو پھر بھی آنسو نہیں بہا سکتا۔ شروع سے ہی یہ سماج لڑکوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ غم کا ایسا اظہار مت کریں۔ سکول میں بچہ بھی روئے تو اس کو ڈانٹا جاتا ہے،”لڑکے ہو کر روتے ہو تمہیں شرم آنی چاہیے“ گھر میں بھی یہی سبق پڑھایا جاتا ہے۔حالانکہ آنسوؤں کا تعلق دل سے ہے جب دل غم کی شدت سے بھر جاتا ہے تو یہ پیالہ چھلک جاتا ہے۔

دل تو سب کے پاس ہوتا ہے لہٰذا جذبات بھی سبھی کے ہوتے ہیں۔ ہر دل میں ارمان ہوتے ہیں، آرزوئیں ہوتی ہیں، ناتمام خواہشوں اور حسرتوں کی آماجگاہ بھی یہ دل ہی ہوتا ہے۔جب یہ دل غم و اندوہ اور رنج و حرماں سے بھر کر بوجھل ہو جائے تو آنسو ہی دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ مرد طاقتور ہے اور آنسو کمزوری کی علامت ہیں یہ سماج مردوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کمزوری ظاہر کریں  جبکہ یہ کوئی کمزوری نہیں یہ بھی دیگر جذبات کی طرح ایک جذبہ ہے،  سماج یہ سمجھنے سے عاری ہے کہ درد کو دبایا جائے تو اور بڑھتا ہے  آنسو بہہ جائیں تو محض پانی ہیں لیکن اگر آنکھ سے نکل نہ پائیں تو زہر بن جاتے ہیں۔

فلموں میں بھی امیتابھ بچن کہتے نظر آتے ہیں ”مرد کو درد نہیں ہوتا“ حالانکہ یہ محض ڈائیلاگ ہے۔ درد تو ہوتا ہے، درد یہ تو نہیں دیکھتا کہ سامنے مرد ہے یا عورت۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے سماج میں عورت تو جب چاہے رو سکتی ہے اور کتھارسس کر سکتی ہے لیکن مرد کو رونے کی اجازت نہیں ہے وگرنہ اس پر طننز کیا جائے گا، اسے شرم دلائی جائے گی حتیٰ کہ اس کی مردانگی پر شک کیا جائے گا۔ چنانچہ کچھ بھی ہو جائے اسے اپنے آنسوؤں کو آنکھ کے اندر ہی قید رکھنا پڑتا ہے، چاہے درد سے سینہ فگار ہو، چاہے دل پھٹ رہا ہو، چاہے کلیجے میں نیزے گڑ رہے ہوں اسے اپنے دکھ کو چھپا کر رکھنا ہے۔ چہرہ بے تاثر رکھتے ہوئے یہی کہنا ہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا۔

مزید تحریریں