شام و سحر

کالی بلی

Black Cat

شازیہ رضا

دسمبر کی آخری رات تھی۔  گیارہ بج رہے تھے۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ شاہ پور کی طرف جانے والی سڑک پر کاروں کا قافلہ رواں دواں تھا۔ یہ سڑک جی ٹی روڈ سے ہٹ کر تھی۔ ان کارروں کے  قافلے کے علاوہ دوسری ٹریفک کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ہیڈ لائٹس کی روشنی میں سڑک نظر آ رہی تھی مگر دائیں بائیں پھیلے ہوئے کھیتوں کی محض جھلک ہی دکھائی دیتی تھی۔ سب سے آگے دولہے کی کار تھی۔ اس سجی سجائی کار میں دولہا امین اور اس کی دلہن شبانہ پچھلی سیٹ پر  چپ چاپ بیٹھے تھے۔

اچانک ڈرائیور نے زور دار بریک لگائی۔ رات کی خاموش فضا میں یک لخت بریکوں کی چرچرانے کی تیز آواز گونجی اور پیچھے آنے والی کاریں بھی رکتی چلی گئیں۔

”کیا ہوا؟“ امین نے بری طرح چونکتے ہوئے کہا۔ کار اس وقت ویران سڑک پر تھی۔ شاہ پور یہاں سے محض تین کلومیٹر دور تھا مگر یہی مقام بہت زیادہ خطرناک تھا۔ اکثر اس مقام پر ڈاکو گاڑیوں کو روک کر لوٹ لیتے تھے۔ امین کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے سوچا کہ ڈاکوؤں نے گاڑی روکنے کی کوشش کی ہے اور آج اگر انہیں لوٹا گیا تو اس کی زندگی کی سب سے خوبصورت رات بھیانک حادثہ بن کر رہ جائے گی۔

”صاحب گاڑی کے نیچے شاید کوئی آ گیا ہے۔“ ڈرائیور نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ اس کے ساتھ ہی وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ ہیڈ لائٹس روشن تھیں اور دور دور تک کسی ڈاکو کے کوئی آثار نہیں تھے۔ امین بھی لپک کر باہر نکلا۔ ڈرائیور گاڑی کی فرنٹ سائیڈ پر جھکا ہوا تھا۔ امین نے تیزی سے آگے بڑھ کر دیکھا۔ گاڑی کے اگلے ٹائر کے پاس ایک کالی بلی سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔

”بچ گئی ہے اگر بریک لگانے میں ذرا سی بھی دیر ہوتی تو کچلی جاتی۔“ ڈرائیور نے امین کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اتنی دیر میں پچھلی گاڑیوں سے بھی کچھ لوگ باہر نکل آئے تھے اور ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔

”کیا ہوا امین؟ کیوں رکے ہو؟“ اس کے چچا نے پکارا۔

”کچھ نہیں رحمت چاچا، آپ گاڑی میں بیٹھیں ، ایک بلی گاڑی کے نیچے آتے آتے بچی ہے۔“ اس نے پیچھے کئی لوگوں کو دیکھا تو پکار اٹھا۔ ”سب گاڑیوں میں بیٹھیں ہم روانہ ہو رہے ہیں“

چند لمحوں میں ہی سب گاڑیاں ایک بار پھر آگے بڑھنے لگیں۔ بارات گھر واپس آ گئی۔ کچھ مہمان تو وہیں ٹھہرے ہوئے تھے باقیوں نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔ دولہا دلہن کا استقبال کیا گیا۔ امین ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور انھوں نے  اس کے لیے لڑکی پسند کی تھی۔ امین اس قدر سعادت مند بیٹا تھا کہ اس نے دیکھے بغیر ہی  ہاں کر دی تھی۔  ساڑھے بارہ بجے کے قریب وہ اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا۔

کمرہ گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ در و دیوار اور مسہری کو نہایت خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔ کمرے میں گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔ بیڈ پر اس کی دلہن شبانہ ایک سرخ گٹھری کی مانند لگ رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے آگے بڑھا پھر بیڈ پر بیٹھ گیا۔  شبانہ کی کلائیوں میں طلائی چوڑیاں اور مہندی والے ہاتھ دکھائی دے رہے تھے۔ اس نے گھونگھٹ اس قدر نیچے کر رکھا تھا کہ چہرے کی ایک جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔

امین کے دل میں مسرت کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ وہ دلہن سے باتیں کرنا چاہتا تھا مگر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے۔

”شادی مبارک“ آخر اس نے ہمت کر کے کہا۔ دلہن خاموش رہی اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ امین نے سوچا کہ شرما رہی ہے۔ خیر کوئی بات نہیں میں گھونگھٹ اٹھاتا ہوں۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھائے تو اسے  اپنے ہاتھوں میں ہلکی سی لرزش محسوس ہوئی۔ بہرحال اس نے بڑی آہستگی گھونگھٹ اتار دیا۔ اس کے ساتھ ہی کمرے میں ایک چیخ کی آواز گونج اٹھی۔

یہ چیخ امین کی تھی۔ جیسے ہی اس نے گھونگھٹ اٹھایا۔اسے ایک انتہائی بھیانک چہرہ دکھائی دیا۔ اس کی رنگت بالکل سیاہ تھی۔ بڑی بڑی آنکھیں خون کی طرح لال تھیں اور نوکیلے دانت باہر کی طرف تھے اور وہ کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔ امین کی آنکھوں کے آگے ایک لمحے کے لیے اندھیرا سا آ گیا۔ عین اسی وقت اس کے کمرے کے دروازے پر زور دار دستک ہوئی۔ اس کی چیخ باہر سن لی گئی تھی۔

وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا۔ باہر چچا رحمت تھے۔

”کیا ہوا بیٹا ؟“ چچا رحمت نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔

”چاچا یہ میر دلہن نہیں ہے یہ کوئی اور ہے۔“ امین نے دلہن کی طرف اشارہ کیا۔  مگر ادھر دیکھتے ہی وہ اچھل پڑا۔ بیڈ خالی تھا۔

”دلہن کہاں ہے بیٹا؟“ چچا رحمت نے خالی بیڈ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ امین کی یہ حالت تھی کہ جیسے ابھی بے ہوش ہو کر گر جائے گا۔ عین اسی وقت واش روم کا دروازہ کھلا اور ایک انتہائی خوب صورت لڑکی باہر نکلی۔ وہ شبانہ تھی  اس کے دلکش چہرے پر شدید پریشانی کے آثار تھے۔

”کیا ہوا ؟ سب ٹھیک تو ہے ناں؟“ اس نے کمزور سی آواز میں پوچھا۔

”ہاں اب ٹھیک ہے۔ سوری چاچا! میری وجہ سے آپ سب پریشان ہوئے ۔ آپ اطمینان رکھیں سب ٹھیک ہے۔“ امین نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ رحمت چچا سر جھٹکتے ہوئے باہر چلے گئے۔ شبانہ واش کے دروازے کے پاس کھڑی اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔ وہ کچھ خوف زدہ سی لگ رہی تھی۔ امین کو خود پر غصہ آنے لگا۔ اس نے سوچا میں نے خواہ مخواہ چیخ مار کر سب کو ڈرا دیا۔ شاید وہ بھیانک عورت میرے تخیل کا کرشمہ تھی۔

”شبانہ ڈرو نہیں ، آؤ یہاں بیڈ پر بیٹھ جاؤ، مجھے پتہ نہیں تھا کہ تم واش روم میں ہو۔“

شبانہ  نے گہری نظر سے اسے دیکھا۔ امین بھی اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر بلا معصومیت تھی اور اتنی پیاری لگ رہی تھی جیسے چاند زمین پر اتر آیا ہو۔ وہ آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس نے محسوس کیا کہ شبانہ کے بدن میں خفیف سی لرزش  ہے۔ وہ اسے بیڈ تک لے آیا۔ آرام سے بیٹھنے کے بعد اس نے بات شروع کی۔

شبانہ میں تم سے کچھ چھپانا نہیں چاہتا۔ سنو بات یہ  ہے کہ۔۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ کمرے میں ایک آواز گونجی۔ امین بری طرح چونک اٹھا۔ (جاری ہے)

مزید تحریریں