شام و سحر

رنگوں کا اندھا پن

رنگوں کا اندھاپن

فائز جبران

رنگوں کا اندھا پن یا کلر بلائنڈنیس ایسی بیماری ہے جس میں انسان رنگوں کی پہچان معمول کے مطابق نہیں کر سکتا یعنی اس کو رنگ اس طرح سے نظر نہیں آتے جس طرح ایک نارمل انسان کو نظر آتے ہیں۔ اگر آپ کسی کلر بلائنڈ شخص کے سامنے سبز اور سرخ رنگ کی دو چیزیں رکھ دیں تو وہ ان کے درمیان فرق نہیں کر پائے گا۔ نیلے اور زردنگ کے ساتھ بھی اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس بیماری میں ہر متاثرہ شخص کے ساتھ مختلف معاملات ہوتے ہیں سب کو ایک جیسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہماری آنکھ میں موجود ریٹینا میں دو اقسام کے سیلز، روڈز اور کونز پائے جاتے ہیں جو روشنی کی پہچان کرتے ہیں۔ روڈ سیلز روشنی اور اندھیرے کی پہچان کرتے ہیں جبکہ کونز رنگوں کو دیکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انسانی آنکھ میں تین طرح کے کونز موجود ہوتے ہیں جنہیں RGB  بھی کہا جاتا ہے یعنی رید، گرین اور بلو۔

            ہمارا دماغ انہیں سیلز کی مدد سے سگنلز موصول کرتا ہے اور رنگوں کو پہچانتا ہے۔ رنگوں کے اندھے پن میں انہی کونز میں مسئلہ پایا جاتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں، یا تو ایک سے زیادہ کونز موجود ہی نہیں ہیں یا موجود ہیں لیکن کام نہیں کر رہیں۔ کلر بلائنڈنیس کی شدت بھی مختلف ہوتی ہے، کچھ افراد میں معتدل اندھا پن ہوتا ہے جس کونز موجود ہوتے ہیں لیکن ٹھیک سے کام نہیں کرتے، ان کو رنگوں کی پہچان کرنے میں اس وقت مشکل ہوتی ہے جب مکمل روشنی موجود نہ ہو۔ اگر وہ کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں اچھی روشنی موجود ہے تو ان کو رنگوں کی پہچان کرنے میں مشکل نہیں ہوتی۔  دوسری قسم کی بیماری میں متاثرہ شخص رنگوں کی پہچان سے قاصر ہوتا ہے۔ چاہے روشنی کم ہو یا زیادہ۔

            رنگوں کے اندھے پن میں متاثرہ شخص کی نظر کمزور نہیں ہوتی اور اکثر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ کلر بلائنڈنیس ہونے کے باوجود  نظر ٹھیک رہتی ہے۔ماہرین کے مطابق اس بیماری کا علاج نہیں کیا جا سکتا نہ کسی سرجری سے اسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے لیکن کلر فلٹر لینز کی مدد سے کلر بلائنڈ افراد کی مدد کی جا سکتی ہے کہ وہ بہتر انداز میں دیکھ سکیں۔ والدین یا اساتذہ جب چھوٹے بچوں کو پڑھاتے ہیں  اور رنگوں کی پہچان کرنا سکھاتے ہیں  تو اس وقت اس بیماری کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

رنگوں کا اندھا پن کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے، اگر یہ بیماری جنیاتی طور پر آپ کے اندر موجود نہیں تو یہ کسی کیمیکل دوا کے ری ایکشن یا ذیا بطیس کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق خواتین کی نسبت مرد اس بیماری کا زیادہ تعداد میں شکار ہوتے ہیں۔ پیدائشی طور پر اس بیماری سے بچنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں لیکن اگر یہ بیماری پیدائشی طور پر لاحق نہ ہو تو پھر اس سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے آنکھوں کا معائنہ کرواتے رہنا چاہیے تا کہ اگر کوئی خرابی پیدا ہو رہی ہے تو بر وقت اس کا علاج کیا جاسکے۔

مزید تحریریں