شام و سحر

جب مال روڈ پر ایک لڑکی کو دیکھا

جب مال روڈ پر ایک لڑکی کو دیکھا

             فائز  جبران 

            ایکسکیوزمی۔۔“کسی کی غمگین آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔میں جو مال روڈ پر شامی صاحب کے ساتھ دنیا کی بے ثباتی پر بحث کر رہا تھا،چونک اٹھا۔اگرچہ آواز پُر سوز تھی مگر رس بھری تھی۔مُڑ کر دیکھا تو ایک اجنبی چہرہ میرے سامنے تھا۔”فرمائیے،میں ہمہ تن گوش ہوں“ میں نے نرمی سے کہا۔یہ الفاظ سُن کر وہ دوشیزہ کند ذہن طالبِ علم کی طرح اپنی لمبی لمبی انگلیاں مروڑنے لگی، جیسے سمجھ نہ پا رہی ہو کہ کیا کہے۔

حضور!ہم نے متعدد بار عرض کیا ہے کہ ہر ایک سے اُردو میں بات نہ کیا کریں، کسی کو سمجھنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔“شامی صاحب نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ میں نے سوچا بات تو ٹھیک ہے۔اُس لڑکی نے ہمیں زبانِ غیر میں ہی مخاطب کیا تھا اور حلیے سے بھی وہ ”مغرب گزیدہ“ ہی لگ رہی تھی۔جینز کے ساتھ لونگ شرٹ،کندھوں پر لہراتے ہوئے لا ئٹ براؤن بال جو غالباً کسی ہیئر کلر کے مرہونِ منت تھے۔

خوش شکل بھی تھی۔”سنیے! آئی ایم ان گریٹ ٹربل، مشکل وقت ہے، پلیز ہیلپ می۔“اُس کے لہجے کا حزن اور آنکھوں میں اداسی کی پرچھائیاں دیکھ کر میرا دل پگھلنے لگا۔”آپ پریشان نہ ہوں، فرمائیے میں کیا مدد کر سکتا ہوں۔“ میں نے کہا۔”جی میں اپنے ہزبینڈ کے ساتھ یہاں مری  سیر کے لیے آئی تھی اور کسی نے ان کا والٹ نکال لیا ہے۔

شام ہونے والی ہے اور ہم نے اب تک کھانا بھی نہیں کھایا ہے۔“ اُس نے ایسے رقت انگیز لہجے میں کہا کہ دل بھر آیا۔اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے پہلو میں کھڑے ایک مجہُول سے شخص کو دیکھا جو نچلا ہونٹ لٹکائے دائیں بائیں یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کی بھینس کھو گئی ہو۔اس سے پہلے کہ  ہمدردی کی لہر میرے دل سے نکل کر ہوا ہو جاتی وہی مدھ بھری آواز گونجی۔”پلیز کچھ کیجیے، میرے پاس تو منرل واٹر  خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں،پیاس سے بُرا حال ہے۔ بس پنڈی تک کا کرایہ مل جائے توسب ٹھیک ہو جائے گا۔

وہاں ہمارے رشتہ دار رہتے ہیں۔“ ارے بس اتنی سی بات ہے، فکر مندی کو کریں بائے بائے اور یہ نوٹ رکھ لیں۔ میں نے پانچ سو روپے کا نوٹ اُس کی طرف بڑھا دیا۔شامی صاحب نے سر جھٹکتے ہوئے مجھے یوں دیکھا جیسے میری دیوانگی میں کسی شبہے کی گنجائش نہ بچی ہو۔ادھر نوٹ دیکھ کر اس لڑکی کی آنکھوں میں چمک سی لہرائی،اس نے فوراً نوٹ پکڑا اور بولی۔”میں آپ کو پنڈی پہنچتے ہی یہ پیسے واپس کر دوں گی۔آپ اپنا ایڈریس بتا دیں“ جانے دیجیے، حالی صاحب کہ گئے ہیں ”دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو“میں نے مسکرا کر کہا۔

”اوہ۔۔انکل حالی تو بہت اچھے آدمی ہیں۔آپ کے رشتہ دار ہیں کیا؟ چلیں جانے دیں، او کے تھینکس۔“ اس نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ کہا  اور قدم آگے بڑھا دئیے، مجہول نوجوان بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔”اف یہ آج کل کے نوجوان، ان کا جنرل نالج تو صفر ہے، اب میں اُسے کیا بتاتا حالی جیسے عظیم شاعر کو بھی نہیں جانتی تھی،لیکن شکر ہے اس کے اداس چہرے پر مسکراہٹ تو آئی بے چاری۔۔۔“ میں شائد کچھ اور بھی کہتا مگر بے چاری کے لفظ پر شامی صاحب کا صبر جواب دے گیا۔”بے چاری، قبلہ چونا لگا گئی آپ کو۔اب کسی اور کو اپنی دکھ بھری کہانی سنا رہی ہوگی۔“

شامی صاحب سر پکڑ لیا۔”حضور! ایسا مت کہیے، کسی پر شک نہیں کرنا چاہیے،کتنی بھولی بھالی سی لڑکی تھی، اجنبی تھی مگر کتنی مانوس سی لگتی تھی۔“ میں نے فوراً نفی کی۔کسی دن یہ مانوس اجنبی آپ کو حیران کر دے گی، دیکھ لیجیے گا۔ شامی صاحب نے چڑ کر کہا۔اچھا آئیے، جی پی او چوک تک چلتے ہیں، ٹہل بھی لیں گے اور کافی بھی پی لیں گے۔

بیس پچیس منٹ بعد کافی کا سپ لیتے ہوئے اچانک میری نگاہ ایک براؤن بالوں والی لڑکی پر پڑی  تو کپ ہاتھ سے گرتے گرتے بچا، یہ تو وہی مانوس اجنبی تھی، مگر اس وقت بہت شوخ نظر آرہی تھی۔ اُس کے ہاتھ میں سلگتا سگار تھا،اور وہ مجہول سا نوجوان بھی ریڈ بُل کا کین پکڑے ہوں ہنس رہا تھا جیسے کسی کا مذاق اڑا رہا ہو۔”میں ابھی اس نوسربازکو سبق سکھاتا ہوں“ میں نے غصے سے کہا اور آگے بڑھنے کو تھا کہ شامی صاحب نے روک لیا۔

اجی رہنے دیں۔ یہ امیر باپ کی  بگڑی اولادیں ہیں۔تفریح طبع کے لئے ایسی حرکتیں کرتے ہیں بس آئندہ محتاط رہیے گا۔ یہ مشورہ  اچھا تھا سو مان لیا مگر ایسے نوجوانوں کی ایسی حرکتیں کسی طور قابلِ تحسین قرار نہیں دی جا سکتیں۔کسی ایک شہر کی بات نہیں آج کل رئیس زادے طرح طرح کی فضول حرکتیں محض تفریح طبع کے طور پر کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

کسی  سے بہانہ بنا کر پیسے اینٹھ لیے،کسی کا موبائل فون چُرا لیا۔ اور کبھی منشیات کا استعمال کر لیا، ان میں سے کچھ پھر باقاعدہ منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوُا ہے کہ ایسے امیر زادوں نے انگلش فلمیں دیکھ کر محض تفریحِ طبع کے لیے ہی پیٹرول پمپ لوٹنے کی کوشش کی اور گولی چل گئی، کوئی بے گناہ مارا گیا۔ یہ نوجوان نڈر ہو کر ایسی کارروائیاں کرتے ہیں کیونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ  اگر پکڑے گئے تو ان کا سرمایہ دار باپ دولت کے بل پر ان کو چھڑا لے گا۔

پولیس کو تو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے لوگ کسی ایسے شخص کی مدد سے گریز کرتے ہیں جو حقیقی طور پر  مجبور اور بے کس ہوتا ہے۔ کاش یہ سرمایہ دار طبقہ ہر دن ہر پل پیسہ کمانے کی دوڑ میں ذرا  رک کر اپنے بچوں کو بھی دیکھ لیا کریں کہ وہ کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ مگر شائد ان کی اصل اولاد تو پیسہ ہوتا ہے اور یہ اولاد تو ان کے لیے اجنبی ہی ہوتی ہے۔مانوس اجنبی۔

مزید تحریریں